سعودی عرب اقوام عالم میں واحد ایسا ملک ہے جس کا دستور قرآن و سنت ہے۔ اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور مسلمانان عالم کے لئے ملی تشخص کا جذبہ ہے۔ سعودی عرب کے حکمران خادم حرمین شریفین نے امت مسلمہ کے لئے جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے ۔
دنیا بھر کے مسلمان سعودی عرب اور خادم حرمین شریفین سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کی ترقی و خوشحالی کو اپنی ترقی و خوشحالی سمجھتے ہیں۔ آل سعود کی حکومت میں توحید کا علم بلند ہوا، خرافات و بدعات کا خاتمہ ہوا اور شرک کا کھلے عام بطلان کیا گیا۔
تیئس 23 ستمبر اسلامی ورثے اور دور جدید کی مثالی مملکت سعودی عرب کا قومی دن ایسا درخشندہ باب ہے، جسے عربوں اور مسلم امہ کی تاریخ میں سنہر ی حروف سے رقم کیا جاتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے 1932ء میں عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کی بنیاد رکھی اور آل سعود کی وجہ امتیاز یہ ہے کہ دیگر بادشاہوں کی طرح انہوں نے صرف شہری ترقی پر توجہ نہیں دی بلکہ دینی اصلاح کو بھی پیش نظر رکھا اور مسلمانوں کے دینی جمود کا علاج کیا جسکے نتیجے میں خطے میں پھیلے شرک بدعات وخرافات کا خاتمہ ہوا۔ اس تناظر میں انہوں نے عظیم مصلح امام محمد بن عبدالوہاب کی نظریاتی اور فکری تحریک کی بدولت جو خالصتا قرآن وسنت کی علمبردار تھی اس سے رہنمائی حاصل کر کے ملک کو استحکام ،خوشحالی،تحفظ، امن و امان کا گہوارہ بنایا اور پائیدار مسلم معاشرہ کی تشکیل ہوئی اور اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کرایا گیا۔سعودی عرب کی ترقی کا راز ا اس فرمان رسول صلي الله عليه وسلم میں پوشیدہ ہے” قولوا : لا إله إلا الله تفلحوا ، وتملكوا بها العرب ، وتذل لكم بها العجم ’’ تم کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو کامیابی حاصل کرو گے اور عرب کے مالک بن جاؤگے اور عجم تمہارے تابع ہوجائیں گے۔‘‘
اسی وجہ سے حجاز مقدس ہماری عقیدتوں کا محور اور روحانیت کا مرکز ہے۔ ہمارے دل اس کی محبت میں دھڑکتے ہیں، اس سے تعلقِ خاطر ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ دل و دماغ کی تمام وسعتیں‘ گہرائیاں اور حرمین شریفین کی محبت سے معمور روح کی ساری پنہائیاں اس سے لبریز ہیں
آج یہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کا قلعہ ہے جس کی مقدس سر زمین پر قبلہ اور حرمین شریفین موجود ہیں، سعودی حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت ملک میں قانون الہی کی عملداری اور امن و سکون کا دور دورہ ہے اور اس کے باشندے اپنی مقبول قیادت سے محبت اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے عوام کو اسلامی طرز حیات، جدید علوم وفنون کی خدمات اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کئے ہیں۔اسی طرح خدمت خلق کے لئے بھی آل سعود نے نیم سرکاری وغیر سرکاری تنظیم قائم کی جن میں رابطہ عالم اسلامی مسلمانوں کی بینپ الاقوامی تنظیم کا درجہ رکھتی ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرنا، اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنا اور گمراہ کن عقائد و نظریات کی نفی کرنا ہے۔آل سعود نے ہمیشہ اپنی و جاہت علم و اسلام دوستی اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد، ملک میں نفاذ قرآن و سنت اور ایک مستحکم اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔
شاہ سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام جان ومال کا تخفظ و آبرو امن و امان کی شاندار مثال سعودی عرب میں دیکھی جاتی ہے۔سعودی عرب اسلامی عقائد اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے فعال کردار اداکررہا ہے وہ مسلم دنیا کو ذرائع ابلاغ کے میدان میں آگے لانے کی سعی کے تحت اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اسلامی ممالک زیادہ زیادہ سے اسلامی ٹی وی چینلز قائم کریں تاکہ اغیار کا تہذیبی وثقافتی میدان میں جاری یلغار کا مقابلہ کیا جاسکے
شاہ سلمان نیک اورصالحِ انسان ہیں۔ ان کے صالح ہونے اورجرات کے اظہار کے لیے یہ کافی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑی قوت امریکہ کے صدر اوباما کو گارڈ آف آنر کی تقریب کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے تقریب سے اٹھ کر چلے جانا، پھر ان کے ہمراہ تقریب میں موجود تمام سعودیوں کا شاہ کے ساتھ اٹھ کر چلے جاناشاہ سلمان کی دین سے گہری وابستگی اور تقویٰ کا مظہر ہے۔ گو ہر مسلمان کو ہی یہ عمل کرنا چاہیے لیکن طاقت اور قوت کے پہاڑکے سامنے بڑے بڑے سر جھکائے یہ وقت خاموشی سے گزاردیتے ہیں۔
حال ہی میں ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں سیلاب آیا تو سعودی عرب کی حکومت اور رعایا نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے خوراک اور دیگر اجناس وافر مقدار میں مہیا کیا اور یوں مصیبت کا شکار مسلمانوں کی اَشک شوئی کے لیے نہایت درجہ درد مندی دکھائی۔
سعودی عرب میں ترقی و خوشحالی کے علاوہ سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفادات کو مقدم جانا اور انہیں اپنے اہداف میں شامل رکھا جو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ مالی امداد کی شکل میں فراہم کر رہے ہیں وہ مسلمان افغانستان میں ہوں فلسطین میں ہوں، پاکستان میں یا دنیا کے کسی بھی گوشے میں۔
حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی سرحد میں گھس کر سعودی فوجیوں کو نشانہ بنایا تو مسلم دنیا کے بیشتر ممالک کی ہمدردیاں بھی سعودی عرب کے ساتھ رہیں،
۔حرم پاک میں کرن حادثہ محض ایک حادثہ ہی تھا، مگر اس حادثے کے بعدسعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ کی بے چینی اور پریشانی دیکھ کر ا یسے لگتا تھا کہ جیسے زخمیوں اور شہیدوں سے ان کا کوئی خونی رشتہ ہو؟ انہوں نے اس دلخراش واقعے کو نہایت خوبصورتی سے سنبھال کر پوری امت مسلمہ کی لاج رکھ لی ۔ اس موقع پر اپنے آباء کے جذبہ اخوت وایثار کی درخشندہ روایات کے مطابق شہیدوں کے لواحقین امداد دینے کا اعلان کیا ۔اگرچہ زندگی کی کوئی قیمت نہیں دے سکتا لیکن اتنی بڑی امدادی رقم سے شہدا کے اہل خانہ کو کچھ راحت ضرور ملے گی ان کا یہ قدم بے مثال ہے اور اس میں متاثرین کے اہل خانہ کے لیے سکون قلب کا سامان ہے شاہ سلمان کے اقدامات غیر معمولی ہیں اس سے قبل کبھی ایسا اعلان کہیں نہیں ہوا کہ مسلم لیڈر نے اتنی بڑی امدادی رقم یا معاوضے کا اعلان کیا ہو‘‘۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ایک حقیقی خادم الحرمین الشریفین کا کردار اداکیا۔
اللہ تعالیٰ مملکت توحید کی دشمنانِ اسلام کے مکر وفریب سے محفوظ رکھے اور مزید ترقی وخوشحالی سے سرفراز کرے آمین۔
عبدالقیوم بسم اللہ مدنی
جامعہ خدیجہ الکبریٰ کرشنانگر نیپال
آپ کی راۓ