درسِ حدیث
بچوں کو کھیلنے کا موقع بھی دینا چاہیے
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ : أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، قَالَ : فَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَبَعَثَنِي إِلَى حَاجَةٍ فَأَبْطَأْتُ عَلَى أُمِّي، فَلَمَّا جِئْتُ قَالَتْ : مَا حَبَسَكَ ؟ قُلْتُ : بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَةٍ. قَالَتْ : مَا حَاجَتُهُ ؟ قُلْتُ : إِنَّهَا سِرٌّ. قَالَتْ : لَا تُحَدِّثَنَّ بِسِرِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا. قَالَ أَنَسٌ : وَاللَّهِ لَوْ حَدَّثْتُ بِهِ أَحَدًا لَحَدَّثْتُكَ يَا ثَابِتُ.
تخريج:-
1- صحيح مسلم / كِتَابٌ : فَضَائِلُ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ / بَابٌ : مِنْ فَضَائِلِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ :2482.
2- مسند أحمد / مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ :13022.
ترجمہ:-
ابو حمزہ انس بن مالک انصاری نجاری مدنی بصری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اس حال میں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو سلام کیا اور مجھے کسی ضرورت کے تحت بھیجا، تو میں اپنی والدہ کے پاس دیر سے پہونچا میری والدہ نے پوچھا کہ کیوں دیر سے آئے؟ میں جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ضرورت کے تحت مجھے بھیجا تھا (میری والدہ) کہتی ہیں کہ کیا کام تھا؟ میں نے کہا کہ وہ راز کی بات ہے، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو کسی سے بھی مت بتانا۔
فوائد:-
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
1- بچوں کے پاس سے گزرتے ہوئے سلام کرنا چاہیے، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ بچے ہیں میں کیوں سلام کروں۔
2- اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کی نگرانی کریں اور وقتِ ضرورت ان کے پاس چل کر جائیں۔
3- چھوٹے بچوں کو کھیلنے سے نہیں روکنا چاہیے۔
4- والدین اپنے بیٹوں کو، بڑے اپنے چھوٹوں کو، اساتذہ اپنے شاگردوں کو کسی ضرورت کے تحت باہر بھیج سکتے ہیں۔
5- بچوں میں بھی راز چھپانے کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔
6- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا بہترین اثر صحابی انس بن مالک انصاری نجاری مدنی بصری رضی اللہ عنہ کی زندگی میں موجود تھا کہ وہ اس راز کو اپنی ماں سے بھی ظاہر نہیں کرتے ہیں۔
7- ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو نہ بتانے پر اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
8- والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی اجازت بغیر کہیں نہ جائیں۔
9- اگر بچے گھر دیر سے لوٹیں تو پہلے تاخیر سے آنے کی وجہ پوچھیں، بعد میں غلطی کے اعتبار سے سزا دیں۔
10- بیٹا اگر کسی شرعی امور کی پابندی کرنے کی وجہ سے گھر دیر سے لوٹتا ہو تو والدین بیٹے کو سزا نہ دیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس واقعہ کی روشنی میں تعلیم دینے اور تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
درسِ حدیث
بخار کو برا بھلا کہنے کی ممانعت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : ذُكِرَتِ الْحُمَّى عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبَّهَا رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :”لَا تَسُبَّهَا؛ فَإِنَّهَا تَنْفِي الذُّنُوبَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ”.
تخريج:-
سنن ابن ماجه | كِتَابُ الطِّبِّ | بَابٌ : الْحُمَّى : 3469.
ترجمہ:-
ابوہریرہ عبد الرحمٰن بن صخر دوسی یمانی مدنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بخار کا ذکر ہوا تو ایک شخص نے بخار کو گالی دی (برا بھلا کہا)۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :” اسے گالی نہ دو (برا بھلا نہ کہو) ؛ اس لئے کہ اس سے گناہ اس طرح ختم ہوجاتے ہیں جیسے آگ سے لوہے کا کچرا صاف ہوجاتا ہے”۔
فوائد:-
مذکورہ بالا حدیث شریف سے کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں:
1- بیماری کو برا بھلا کہنے سے بچنا ضروری ہے۔
2- بیماری اور دیگر پریشانی پر صبر کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
3- کسی بات کو مثال دے کر سمجھانا سنت ہے۔
4- بیماری کو دعا اور دوا کے ذریعے سے دور کرنا چاہئے (جیسا کہ متعدد احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے) نا کہ برا بھلا کہہ کر۔
5- صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے دور میں پیش آنے والے ہر چھوٹے بڑے واقعہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں صابر و شاکر بنائے آمین۔
درسِ حدیث
عورت کا مرد کو رُقیہ (دم،جھاڑ پھونک) کرنا
عن عُرْوَة، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ، فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ طَفِقْتُ أَنْفِثُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ، وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ.
تخريج:-
1- صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْمَغَازِي | بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَفَاتِهِ :4439.واللفظ له.
صحيح البخاري | كِتَابٌ : فَضَائِلُ الْقُرْآنِ | بَابُ فَضْلِ الْمُعَوِّذَاتِ :5016.باختصار.
صحيح البخاري | كِتَابُ الطِّبِّ | بَابُ الرُّقَى بِالْقُرْآنِ وَالْمُعَوِّذَاتِ :5735.
صحيح البخاري | كِتَابُ الطِّبِّ | بَابٌ : فِي الْمَرْأَةِ تَرْقِي الرَّجُلَ :5751.
2- صحيح مسلم | كِتَابٌ : السَّلَامُ | بَابٌ : رُقْيَةُ الْمَرِيضِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَالنَّفْثِ :2192. وفيه "لِأَنَّهَا كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً مِنْ يَدِي”.
3- سنن أبي داود | كِتَابٌ : الطِّبُّ | بَابٌ : كَيْفَ الرُّقَى ؟ :3902.
4- سنن ابن ماجه | كِتَابُ الطِّبِّ | بَابٌ : النَّفْثُ فِي الرُّقْيَةِ :3529.
5- موطأ مالك | كِتَابٌ : الْجَامِعُ | التَّعَوُّذُ وَالرُّقْيَةُ فِي الْمَرَضِ :2716.
6- مسند أحمد | مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا :24831 وقد أورده في عدة أماكن.
ترجمہ:-
امّ المؤمنین عائشہ صدّیقہ تیمیہ قرشیہ مکیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر دم کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں پر دم کرکے تمام جسم پر پھیرلیا کرتے تھے پھر جب آپ ﷺ اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تو میں معوّذات پڑھ کر آپ کے ہاتھوں پر دم کرکے آپ کے ہاتھ کو آپ ﷺ کے جسم مبارک پر پھیرتی تھی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔
فوائد:-
اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ
1- آیات قرآنیہ پڑھ کر دم کرنا سنت ہے۔
2- جھاڑ پھونک کرنے میں سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
3- عورت مرد کو اور مرد عورت کو دم کر سکتا ہے۔
4- بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کا خیال رکھے۔
5- ہتھیلی پر دم کر کے پورے جسم میں پھیرنا سنت ہے۔
6- عورتوں کو بھی تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔
7- نبی ﷺ اچانک اس دنیا سے نہیں رخصت ہوئے تھے بلکہ اپنی وفات سے پہلے بیمار ہوئے تھے اور کمزوری بھی لاحق ہوئی تھی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعاؤں کا اہتمام کرنے اور اس پر مداومت برتنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
عمران احمد عبد الجلیل بستوی
آپ کی راۓ