ضلع سرہا میں علوم کتاب وسنت ، مسلک سلف کی نشرواشاعت اور رد شرک وبدعت کے لیے جن علمائے کرام اور بزرگان دین نے بھرپور حصہ لیا اور اپنا خون جگر جلایا ہے ان ایک نمایاں نام مولانا محمد خلیل الرحمن اصلاحی رحمہ اللہ کا بھی ہے، آپ مستند عالم دین، کہنہ مشق مدرس ومربی، اور بے لوث داعی تھے، آپ نے بیلہا کی سرزمین میں مسلسل چالیس برس تک فکری شعور اور منہجی کردار کے ساتھ دعوت دین اور نونہالان امت کی تعلیم وتربیت کے فرائض احسن طریقے سے انجام دیئے ہیں، آئندہ سطور میں آپ کی حیات وخدمات کا ایک مختصرجائزہ پیش کیا جا رہا ہے.
*نام ونسب:*
محمد خلیل الرحمن اصلاحی بن چودھری میاں بن حاجی محمد دھنوشی میاں.
*تاریخ ومکانِ ولادت:*
آپ کی ولادت 5 /فروری 1947ء مطابق 23 پوش 2003 بکرم سمبت کو موضع: بیلہا 4 (حال کلیان پور نگر پالیکا-12 بیلہا) ضلع سرہا، نیپال میں ہوئی۔
*تعلیم و تربیت:*
شیخ مرحوم نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے ہی مکتب ” مدرسہ نجم الہدی السلفیہ” بیلہا 4 (حال کلیان پور نگر پالیکا-12بیلہا) ضلع سرہا، نیپال میں حاصل کی۔ بعد ازاں "مدرسہ عربیہ مخزن العلوم السلفیہ” رمول، ضلع: سرہا، نیپال سے ہوتے ہوئے ہندوستان کے معروف و مشہور مدرسہ” اصلاح المسلمین” پٹنہ ، بہار ، ہند میں داخلہ لیا، جہاں سے امتیازی نمبرات کے ساتھ آپ نے 1967 میں فضیلت کی ڈگری حاصل کی۔ شیخ کی دلی خواہش تھی کہ مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے سعودی عرب کے جامعات کا رخ کیا جائے لیکن گاؤں اور علاقہ کی حالت دیکھ کر گاؤں ہی میں دینی خدمات انجام دینے لگے ۔
*مشہور اساتذہ کرام:*
شیخ عبدالسمیع جعفری ندوی (پٹنہ بہار)، شیخ محمد مصطفی اصلاحی (بسنت پور) ، شیخ مشتاق احمد اصلاحی(بسنت پور )، شیخ عبد الرؤف عمری، شیخ محمود عالم عمری، شیخ عبد المتین عمری، شیخ ریاض احمد ندوی، شیخ حیات اللہ سلفی، شیخ عبد المالک اصلاحی وغیرہم۔
*تدریسی خدمات:*
آج سے تقریبا ایک سو چھ سال پہلے کی بات ہے جب ہند ونیپال کے سرحدی علاقے بالخصوص ہندوستان کی سرحد جے نگر، ضلع: مدھوبنی، بہار سے متصل مشرقی نیپال کے ضلع : سرہا میں جہالت وبے دینی پورے زور وشور پر تھی، ہر طرف شرک و بدعات کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، مسلم سماج جاہلانہ رسوم ورواج میں ڈوبا ہوا تھا،عوام الناس توہم پرستی،تعزیہ پرستی،قبر پرستی، پیر پرستی ،اور بدعات و خرافات ہی کو دین سمجھتے تھے، علامہ عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ کے دوجلیل القدر شاگرد (علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کے دادا) مولانا رضاء اللہ بلکٹوی دربھنگوی [م:1941ء] اور مولانا ضمیرالدین دربھنگوی [ولادت:1885ء، وفات:1943]رحمہما اللہ ہمارے اس علاقے میں دعوت تبلیغ اور اصلاح وتربیت کے لیے تشریف لایا کرتے تھے، ان دونوں بزرگوں نے باشندگان "بیلہا” سے رائے ومشورے کے بعداس علاقہ میں اسلامی تعلیم کے فروغ اور مسلمانوں كے بچوں اور بچیوں کو دین کے سانچے میں ڈھالنے اورمسلم معاشرہ کو شرک وکفر، بدعات وخرافات، اوہام پرستی و تعزیہ داری اور رسوم باطلہ سے پاک کرنے کے پاکیزہ مقصد سے1916ء میں ایک تعلیمی ادارہ بنام” مدرسہ نجم الہدی السلفیہ” بیلہا، ضلع: سرہا، نیپال قائم کیا، جس کے قیام کےلیے جناب الحاج دھونسی میاں رحمہ اللہ نے اپنی قیمتی زمین بطور وقف عطا کی، اور اس کارخیر میں ان کے علاوہ جناب ٹکھن میاں (راقم الحروف کے جد حاجی امل میاں کے جد ہیں) ، جناب دل جان میاں، جناب سبجان میاں(یہ دونوں جناب ٹکھن میاں کے اولاد ہیں جو راقم الحروف کے جد اعلیٰ ہیں) ، جناب حاجی تیغلی میاں، جناب پھودار میاں، جناب سنر میاں رحمہم اللہ نے بھی بھرپور حصہ لیا، ان کی طرف سے دی گئی زمینوں میں مدرسہ اور جامع مسجد کی بنیاد رکھی گئی، اور وہاں سے نونہالان امت کی دینی تعلیم وتربیت اور دعوت واصلاح کے کام کا آغاز ہوا ،پورے 51 برس تک یہاں ابتدائی درجات تک کی ہی تعلیم ہوتی تھی، ہمارے ممدوح شیخ محمد خلیل الرحمن اصلاحی رحمہ اللہ جب ہندوستان کے معروف تعلیمی ادارہ "اصلاح المسلمین ” پٹنہ، بہار ، انڈیا سے 1967ء میں سند فراغت ودستار فضیلت حاصل کرکے وطن تشریف لائے تو اس دینی مکتب سے بحیثیت مدرس وداعی وابستہ ہوگئےاورنئی نسل کو اسلامی تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کرنے اور اس مدرسے کی خدمت وتقویت،اس کی تعمیروترقی اور استحکام کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی، آپ مسلسل 40 برس تک یہاں انتہائی حسن وخوبی کے ساتھ درس وتدریس اور امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے رہے، اور اپنا تمام وقت افراد سازی میں لگا کرقوم وملت کو قابل ترین سپاہی عطا کرتے رہے، آپ کی سعی پیہم اور بے لوث جدوجہد کےنتیجہ میں یہ ادارہ مکتب سے ترقی کرتا ہواآج مرحلۂعالمیت تک پہنچ چکا ہے، اور اس کے فیوض وبرکات سے آج ہمارے گاؤں بیلہا اور اس کے اطراف میں علماءکرام کی کوئی کمی نہیں ہے، الحمدللہ ہرگاؤں اور ہربستی میں ایک عالم دین موجود ہے۔
*دعوتی خدمات:*
شیخ رحمہ اللہ ایک ممتاز سلفی عالم، ماہر ومؤثر خطیب اور واعظ تھے،آپ کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ سے بھی بےحد شغف تھا، آپ پورے جوش وخروش کے ساتھ دعوتی فرائض انجام دیتے تھے،جب کبھی بھی لوگوں کے درمیان وعظ و نصیحت اور طلباء کو درس دیتے تو کہتے تھے کہ یہ حدیث صحیح ہے اس لئے بیان کیا ہوں اور آپ لوگ اس حدیث پر عمل کریں اور جب ضعیف حدیث بیان کرتے تو اس کی وجہ بھی بیان کر دیتے تھے کہ اس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے.
آپ نے موضع : بیلہا اور قرب وجوار کے مواضعات میں دعوت وتبلیغ، وعظ وارشاد ، اصلاح امت اور قمع بدعات وخرافات کے لیے متعدد مفید طریقہ کار اختیار کیا، مثلا:
❀ *ہفتہ وارى مجلس وعظ ودرس کا اہتمام:*
شیخ رحمہ اللہ ہر ہفتہ جمعرات کے دن باقاعدگی کے ساتھ بعد نماز مغرب آدھے گھنٹہ درس دیا کرتے تھے، اور درس کے اخیر میں وقفہ سوالات بھی رکھتے جس میں سامعین اپنے سوالات شیخ کے سامنے پیش کرتے اور آپ ان کے تشفی بخش جوابات دیا کرتے تھے،علماءکرام ، طلباء اور مرد وخواتین کی کثیر تعداد اس پاکیزہ مجلس میں شریک ہوکر اپنی روحانی پیاس بجھاتی، ان ہفتہ واری دروس کے مکمل مصاریف جناب ماسٹر عابد صاحب بیلہا کے گھر سے ادا کیے جاتے تھے۔
❀ *اطراف کى بستیوں میں دعوتی واصلاحی اجتماعات کا اہتمام:*
شیخ رحمہ اللہ اپنے ساتھ علماءکرام کی ایک ٹیم لے کر علاقے کى مختلف بستیوں مثلاً :سکھوبا مران، اردانا، ارما بھکراہا، رمنا، ماڑر، سرہا، میسوتھا، رمول، ایٹاری ، پرساہی، چکنا اوربھکراہا وغیرہ میں دعوت وتبلیغ کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔
❀ *خطبہ جمعہ کے لئے علاقائى مساجد میں علماء کرام کو بھیجنے کا اہتمام:*
شیخ رحمہ اللہ قرب وجوار کی مسجدوں کى خبر گیری کیا کرتے تھے کہ آج کس مسجد میں خطبہ جمعہ کے لئے امام موجود ہے اور کس مسجد میں نہیں اگر کسی مسجد میں امام صاحب نہیں ہوتے تو بیلہا سے فوری طور پر کسی عالم دین یا طالب علم کو خطبہ اور نماز جمعہ کے لئے بھیج دیا کرتے تھے اور شیخ رحمہ اللہ نے اطراف کے لوگوں کو یہ بھی کہہ رکھا تھا کہ اگر آپ کے یہاں خطبہ اور نماز جمعہ کے لئے کوئی امام وخطیب نہ ہو تو آپ ہمیں جمعرات کے دن ہی بتادیا کریں تاکہ میں اس کا انتظام کرلوں، الحمد للہ لوگ ایسا ہی کیا کرتے تھے، اسى ضمن ميں راقم الحروف کے علاوہ ہمارے کئی احباب بھی شیخ رحمہ اللہ کے کہنے پر خطبہ جمعہ اور رمضان المبارک میں صلاۃ التراویح کے لئے علاقائى مساجد ميں جایا کرتے تھے ۔
❀ *مریضوں کی عیادت کا اہتمام:*
موضع: بیلہا اور قرب وجوار کے مسلمانوں میں جب کوئی بیمار ہوتا تو اس کی عیادت وبیمار پرسی کی غرض سے شیخ رحمہ اللہ علماءکرام وطلباء کو اپنے ہمراہ لے کر اس کے گھر تشریف لے جاتے اور اس کی شفایابی کے لیے دعائیں اور اسے صبروشکر کی تلقین کرتےتھے اور اگرکوئی خلاف شریعت چیز دیکھتے تو اس پر متنبہ کرکے اس سے اجتناب کی نصیحت فرماتے، مولانا موصوف اور ان کی قابل احترام ٹیم 4 اگست 2010ء کو راقم الحروف کی دادی کی عیادت وبیمارپرسی کے لیے میرے گھر بھی تشریف لا چکی ہے۔
❀ *وفات پر تعزیت کرنے کا اہتمام:*
اسی طرح جب کسی کی وفات ہوتی تو اس کے جنازے میں شرکت کرتے اور بعد میں تعزیت کے لیے اس کے گھر بھی جاتے اورمیت کے اہل خانہ، اقرباء اور رشتہ داروں کو صبراور اجر وثواب کی امید رکھنے کی ترغیب دیتے، ایک دفعہ 2007ء میں شیخ رحمہ اللہ تعزیت پیش کرنے کے لئے علماء کرام اور طلباء کے ساتھ جناب ڈوھنما میاں (اب عبدالقدیر، سومن میاں) کے گھر گئے ہوئے تھے توراقم الحروف بھی ان كے ساتھ تھا.
شیخ رحمہ اللہ کی ان دعوتی اور تبلیغی کوششوں کی وجہ سے موضع: بیلہا اور قرب وجوار میں وسیع پیمانے پر توحید وسنت کی اشاعت ہوئی، ہزاروں لوگوں نے صحیح اسلامی عقیدہ سیکھا، دینی تعلیمات سے روشناس ہوئے اور اپنے اعمال وافعال کو درست کیا۔
*مشہور تلامذہ:*
شیخ رحمہ اللہ نے40 برس کی ایک طویل مدت تک درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا ہے، اس دوران آپ نے تدریس کے ذریعہ سے بے شمارشاگرد پیدا کئے ، ان تمام لوگوں احصاء تو ناممکن ہے البتہ آپ کے چند مشہور شاگردوں کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں جو علم وفضل سے آراستہ ہوکر شب وروز دین حق کی خدمت میں مصروف ہیں:
شیخ شمس الدین اسلامی، شیخ بشیر حبیب مدنی، شیخ ابراہیم اسلامی، شیخ عزیر عبد الرزاق اسلامی، شیخ اسلم شاہ اسلامی، شیخ عبد اللہ حلیم اسلامی، شیخ محمد اکمل شاکر مدنی، شیخ محمد شاہد حسن سراجی، شیخ محمد اکبر شاکر سلفی، شیخ عبد الرحمن خلیل الرحمن مفتاحی، شیخ علیم الدین رسول سلفیؔ، شیخ اجمل شاکر فیضی، شیخ ظہیر الدین امل فیضی، شیخ ثناء اللہ راعین ریاضی، شیخ مجیب الرحمن ایوب سلفی، شیخ محمد فیروز طیب اثری، شیخ محمد فیروز بزرگ سلفی، ڈاکٹر محفوظ الرحمن خلیل الرحمن مدنی، ڈاکٹر پرویز عالم زبیر عالم مدنی، ڈاکٹر محمد خالد زاہد حسین مدنی، شیخ عبد اللہ احمد سنابلی، حافظ فضل الرحمن عطاء اللہ مدنی، شیخ سمیل اختر جمشید ریاضی، حافظ جاوید ماسٹر عابد سلفی، شیخ محمد امتیاز شعیب مکی، شیخ نصیب الرحمن شمشیر مدنی، راقم الحروف محمد مصطفیٰ کعبی ازہری، شیخ ریاض احمد حنیف مدنی ، شیخ محمد کوثر اسرائیل رحمانی، شیخ عبد الغفار عبدالمجید سلفی، شیخ محمد معاذ ایوب سلفی، شیخ محمد شمشاد رضاء اللہ سلفی، شیخ محمد سلمان سجیل تیمی، شیخ نصرالدین رفید سلفی، شیخ نوشاد عالم نعمت عالیاوی ، شیخ حبیب اللہ یعقوب سلفی، شیخ محمد سراج حنیف سلفی، شیخ محمد سہیل عمری، شیخ محمد مصطفیٰ علی حسن سراجی، شیخ محمد اشفاق عبداللہ عالیاوی، شیخ نوشاد فرید عالیاوی، شیخ نظام الدین انیس فیضی، شیخ تجمل الحق انیس فاروقی، شیخ فہد ثناء اللہ سراجی، حافظ دل محمد منصور سلفی، شیخ مجیب الرحمن عبدالرحمن سراجی۔
*اخلاق وکردار:*
مولانا موصوف علم وفضل، تقوی وتدین اور اخلاق حمیدہ کے اعلی مقام پر فائز تھے،خالص اہل حدیث مذہب (کتاب وسنت) کے اتباع کرنے والے تھے اور حتی الوسع منہج سلف صالحین کے مطابق ہی انھوں نے حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ گزارا ، خیر وبھلائی کی ترغیب اور انکار منکر آپ کا خاص وصف تھا، آپ نہایت حکمت کے ساتھ منکر کی نکیر کرتے اور شرک ، کفر ، فال بد اور بدعتوں کی کھل کر تردید کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے یہاں دھامیوں کی آمد و رفت پر کڑی نگاہ رکھتے تھے ۔ حق کی راہ میں پیش آنے والی مصیبتوں سے سمجھوتہ نہیں بلکہ سامنا کرتے تھے اور اکثر کسی سے تعرض کی بجائےعفوو درگذر سے کام لیتے تھے ۔ اور سبھی لوگوں سے مسکرا کر ملتے تھے اگرچہ اس سے کوئی غلطی ہوجاتی’ کیونکہ دیہاتیوں سے جہالت ولاعلمی کے باعث غلطی ہوجاتی تھی تو ایسے موقعوں پر آپ سنت کا اسلوب اختیار کرتے تھے ۔
*وفات:*
16 مئی 2011 ء مطابق 5 جیٹھ 2068 کو آپ اس دنیا سے رحلت کر گئے اور اس وقت آپ کی عمر 64 سال تین مہینہ دس دن تھی،آپ کی چچازاد بھائی مولانا محمد ایوب سلفی حفظہ اللہ کی امامت میں آپ کی نماز جنازہ موضع: بیلہا کی عیدگاہ میں ادا كى گئى، اور نماز جنازہ سے قبل آپ کے چچا زاد بھائی فضیلۃ الشیخ عطاء الرحمن مدنی رحمہ اللہ علیہ (2014ء) سابق ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال نے لوگوں کے سامنے شیخ رحمہ اللہ کی حیات اور قابل قدر تعلیمی ودعوتی اور سماجی خدمات کا مختصر خاکہ پیش کرتے ہوئے آپ کو خراج عقیدت پیش کیا-
*پسماندگان:*
شیخ رحمہ اللہ کی چار لڑکیاں اور چار لڑکے ہیں جن میں دو عالم دین ہیں: ایک مولانا عبدالرحمن بن خلیل الرحمان مفتاحی حفظہ اللہ اور دوسرے ڈاکٹر محفوظ الرحمٰن بن خلیل الرحمٰن مدنی حفظہ اللہ ہیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی شیخ رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین ۔
آپ کی راۓ