مرزا غالب کے خطوط کا عصری شعور

مقالہ نگار:شاہرخ یوسف شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑہ آغا اکیڈمی

4 مئی, 2023

غالب کا پورا نام اسد اللہ بیگ خان اور عرف مرزا نوشہ تھا۔ آپ سترہ سو ستانوے آگرہ میں پیدا ہوئے ۔مرزا غالب کے آباواجداد سمرقند کے باسی تھے۔ مرزا قاقون بیگ غالب کے دادا پہلے بزرگ تھے جنہوں نے سمرقند کو خیر آباد کہا اور ہندوستان میں سکونت اختیار کی۔مرزا غالب کے والد مرزادولہا کے نام سے معروف تھے۔ ان کا اصل نام مرزا عبداللہ بیگ تھا اور ان کی اولاد میں تین بچے تھے ۔مرزا غالب’ مرزا یوسف اور چھوٹی خانم۔ تیرہ سال کی عمر میں امراؤ بیگم سے شادی ہوئی مرزا اسد اللہ خان غالب کی۔اسد اللہ خان غالب نے ایک خط جو انہوں نے منشی حبیب اللہ خان  کو لکھا اس میں تحریر کیا

باپ میرا عبداللہ بیگ خان بہادر لکھنؤ جاکر نواب آصف الدولہ کا نوکر رہا۔ بعد چند روز حیدرآباد جاکر نواب نظام علی خان کا نوکر رہا۔ تین سو سال کی جمعیت سے ملازم رہا۔ وہ نوکری ایک خانہ جنگی کے بکھیرے میں جاتی رہی ۔

غالب کی عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ ان کی عمر پانچ سال یا سات سال تھی کہ ان کے  والد کا انتقال ہوگیا۔ غالب نے اپنی عمر کے بارے میں اسی خط میں وضاحت کی ہے کہ وہ پانچ سال   کے تھے۔ تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ چچا کی وفات نو برس کی عمر میں ہوئی۔ یوں غالب زندگی میں دوبار یتیم ہوئے۔ غالب نے جو تخلص اختیار کیا اس کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابتدا میں انہوں نے اسد اور بعد میں غالب تخلص کیا۔ اس بات کی وضاحت انہوں نے منشی شیو نرائن رام کے خط میں کی۔

میں نے تو کوئی دو چار برس اسد تخلص کیا ورنہ غالب ہی لکھتا رہا۔

غالب ابتدائی شاعری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسد تخلص کیا کرتے تھے۔ پھر جب غالب کلکتہ آئے تو غالب کی شخصیت پر اعتراضات سامنے آئے۔ سب سے پہلا اعتراض جو غالب کی شخصیت پر کیا گیا وہ یہ تھا کہ یہ بندہ دو تخلص کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس شخص کی صداقت مشکوک ہے۔ اسی بنا پر غالب نے اسد کو چھوڑ کر غالب تخلص کیا۔غالب نے کچھ ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی۔ باقاعدہ تعلیم انہوں نے آگرہ کے مشہور استاد شیخ معظم سے حاصل کی۔ غالب نے عربی زبان قواعد کی چند کتابیں پڑھی تھیں اور ان کی توجہ فارسی کی طرف زیادہ رہی۔ اپنی تعلیم کے متعلق انہوں نے کئی خطوط میں ذکر کیا ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ

میں نے ایام دبستان نشینی (مکتب کی تعلیم کا زمانہ) میں شرح مائتہ عامل تک پڑھا۔ بعد اس کے لہو و لعب اور آگے بڑھ کر فسق و فجور یا عیش و عشرت میں منہمک ہو گیا۔ فارسی زبان سے لگاؤ اور شعر و سخن کا ذوق فطری و طبعی تھا۔

غالب نے اعلی فارسی تعلیم اور بعض دیگر علوم کی تحصیل ملا عبدالصمد ایرانی سے کی۔ غالب کی خوش قسمتی تھی کہ ایران کے ایک رئیس زاد ہندوستان آئے۔ جو فارسی علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ غالب کی عمر اس وقت چودہ سال کی تھی۔ مرزا نے ان کی قابلیت کا کچھ اندازہ لگایا اور دو برس تک ان کو اپنے یہاں ٹھہرایا اور ان سے باقاعدہ فارسی ادبیات اور دیگر علوم کی تحصیل کی۔ عبدالصمد سے تحصیل علم کا ذکر غالب نے کئی جگہ کیا ہے۔ مکاتیب غالب میں اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ کیجیے

ناگاہ ایک شخص کے سامان پنجم کی نسل میں سے معہذا منطق و فلسفہ میں مولانا فضل حق مرحوم کا نظیر اور مومن ‘صوفی صافی تھا۔ میرے شہر (آگرہ) میں وارد ہوا اور لطائف فارسی بحث (خالص فارسی بے آمیزش عربی) اور  عوامفن فارسی آمیختہ بہ عربی میرے حال ہوئے۔ سونا کسوٹی پر چڑھ گیا ۔ذہن محسن (کند)نہ تھا ۔زبان دری سے پیوندازلی اور استاد بے مبالغہ جاماسپ عہدو براجمہر عصر تھا۔حقیقت اس زبان کی دل نشین و خاطر نشان ہوگئی۔

غالب بہت بڑے شاعر تھے۔ مگر ان کی زندگی آسان نہ تھی غالب کو زندگی میں بہت سے صدمات پہنچے۔ اس کی وجہ سے غالب کی زندگی میں رنج و غم کا عالم رہا۔ غالب کی زندگی میں پہلا صدمہ والد کی وفات کا ہے۔ غالب کی عمر پانچ  برس تھی کہ ان کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے اور غالب کو بچپن میں ہی یتیمی کا سامنا کرنا پڑا۔والد کی وفات کے بعد ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ خان نے غالب کی پرورش کی۔ غالب کی زندگی میں دوسرا صدمہ چچا کی وفات ہے۔غالب کے چچا اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو  اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔تھوڑے ہی عرصے کے بعد غالب کے چچا بھی ایک معرکہ میں ہاتھی سے گرنے کی وجہ سے انتقال کر گئے  ان کو زندگی میں دوسری مرتبہ یتیمی کا سامنا یوں کرنا  پڑا ۔تیسرا صدمہ اولاد کا نہ ہونا۔ غالب کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔ اللہ تعالی نے انہیں سات اولادیں عطا کیں مگر کوئی بھی زندہ نہ رہی۔ کسی بھی بچے کی عمر پندرہ ماہ سے زیادہ نہ ہوئی۔ غالب کو چوتھا صدمہ پینشن کے مسئلے کا تھا ۔ان کو ساری عمر پینشن کا مسئلہ رہا۔ انہوں نے حکومت پر کیس کر رکھا تھا۔ اس حوالے سے مالک رام لکھتے ہیں

غالب کو جو پینشن کا مسئلہ رہا وہ تاعمر ختم نہ ہوا۔اس پر افسوس غالب کو ساری عمر ہی رہا ہے۔

غالب کو زندگی میں جو پانچواں صدمہ پہنچا وہ بھائی کا قتل تھا۔ ان کے بھائی مرزا یوسف کو انگریز  سپاہی نے انیس اکتوبر اٹھارہ سو باون کو قتل کر دیا۔ بیان کئے گئے ان تمام صدمات کی عکاسی غالب نے جابجا اپنی شاعری میں کی ہے۔

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

شعر و سخن سے دلچسپی غالب کو اخیر عمر تک  روبکاری اور خطوط لکھنے اور لکھوانے کا سلسلہ تو موت سے ایک دن پہلے تک جاری رہا۔ مرنے سے پہلے چند روز بے ہوشی طاری ہوگئی تھی۔ کئی کئی گھنٹوں کے بعد چند منٹ کے لئے ہوش میں آتے تھے اور پھر بے ہوش ہوجاتے تھے انتقال سے ایک روز قبل حالی عیادت کو گئے۔ اس وقت کئی پہر کے بعد افاقہ ہوا تھا۔ حالی کا یہ کہنا ہے کہ مرنے سے پہلے اکثر یہ شعر ورد زبان میں رہتا تھا

واپسیں بر سرراہ ہے

عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے

انہوں نے 15 فروری 1869ءکو عالم آب و گل میں بہتر سال تک اور روبکاری کے عمل سے گزرنے کے بعد اس کو جان دے دی۔ جس کی دی ہوئی تھی۔ وہ جسمانی سطح پر تو وفات پا گئے مگر ان کی ادبی زندگی ابدی بن گئی۔غالب کی تصانیف کافی تعداد میں موجود ہیں۔ کلیات نثر میں تین کتابیں پنج آہنگ مہر نیم روز اور دستنبو ہے۔ ان کے علاوہ قاطع برہان درفش کاویانی کلیات نظم فارسی سبد چین یہ فارسی تصانیف ہیں اور اردو تصانیف میں دیوان اردو عود ہندی اردوئے معلی گل رعنا مکاتیب غالب قادر نامہ لطائف غیبی اور مکتوبات غالب وغیرہ شامل ہیں ۔

خطوط نگاری یا مکتوب نگاری کا آغاز غالب نے کیا۔ انہوں نے اپنے خطوط میں زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات غربت کا بیان تاریخ کا بیان سیاست کا بیان اور اسی طرح ماحول میں موجود نا سازگار حالات کا بیان کیا ہے۔ غالب کو سب سے بڑا مسئلہ معاش کا تھا۔ ان کی زندگی تنگ دستی میں گزری۔ غالب پر ایسا وقت بھی آتا تھا کہ ایک وقت کا کھانا ہوتا اور ایک وقت کا نہیں۔ غالب نے اپنے خطوط میں اپنی لاچاری بے بسی اور غربت کا بیان کھل کر کیا ہے۔غالب نے  ایک خط میں حالی کو ایک جملہ لکھا

اگر زکوۃ فرض ہے تو سب سے پہلا حق استاد کا ہے۔

معاشرتی وسائل کم ہو ہونے کی بنا پر غالب پر غربت رہی۔ غالب کام کاج کرتے نہ تھے اور شراب پیتے اور جوا کھیلتے تھے۔ غالب کے خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنے قریبی لوگوں کو اپنے حالات سے آگاہ رکھتے تھے۔ جب بھی انہیں کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہوتا تو وہ اپنے قریبی لوگوں سے اس کا ذکر کرتے۔غالب کی زندگی کی بڑی پریشانی اولاد کا نہ ہونا ہے۔ اولاد کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اپنے دوستوں کے بچوں کو اپنے بچے کہتے۔ نواب امین الدین کے نام خط میں لکھتے ہیں

میری زوجہ تمہاری بہن۔ تمھارے بچے میرے بچے ہیں۔ خود جو میری بھتیجی ہے۔ اس کی اولاد بھی تمہاری اولاد ہے۔تمہاری سلامتی چاہتا ہوں۔ تمنا یہ ہے کہ ان شاء اللہ تعالی تم جیتے رہو گے اور میں تم دونوں کے سامنے مر جاؤں گا۔

 

اپنے دور کے حالات و واقعات کا بیان تاریخ کا بیان ہے۔ غالب کے خطوط میں معاصر تاریخ کا بیان بھی ملتا ہے

غالب جہاں خط لکھتے ہیں۔ وہاں اپنے عہد کی مکمل تاریخ لکھتے ہیں۔وہ منشی ہر گو پال تفتہ کے نام خط لکھتے ہیں

نواب مصطفی خان شیفتہ جو کہ قید سے رہا ہو چکے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان سے ملنے جاؤں مگر کیا کروں گورا سپاہی ہر وقت شہر میں بیٹھا رہتا ہے اور وہ ہندوستانیوں پر ظلم ڈھاتا ہے۔

غالب کا یہ کمال ہے کہ اپنی تحریروں میں وہ ذات اور ماحول کی جزئیات پیش کرتے ہیں۔ اپنی ذات سے ہٹ کر وہ اپنے ماحول کا بیان کرتے ہیں۔ یعنی معاشی ماحول کیا تھا۔ خاندان کونسا تھا۔سیاسی حالات و واقعات کیا تھے۔ رسم و رواج کون سے تھے۔ ان سب چیزوں کا بیان مرزا کے خطوط میں ملتا ہے۔ میر غلام بابا خان بابا کے نام خط میں لکھتے ہیں

رقعہ بھیجوں بہار کی سیر دکھلائی۔ یہ سواری ریل روانہ ہونے کی لہر دل میں آئی۔ پاؤں سے اپاہج کان سے بہرہ ضعف بصارت ضعف دماغ ضعف دل ضعف معدہ ان سب ضوفوں پر کیوں کر قصد سفر کروں۔

 

غالب نے اپنے خطوط میں اپنے زمانے کی منظر کشی کو بھی بیان کیا ہے۔ ان کا یہ کمال ہے کہ جو کچھ بیان کرتے ہیں۔ اس کی لفظی تصویر بنا کر پیش کرتےہیں۔ بیان کرتے وقت وہ جزئیات تشبیہات و استعارات کا بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ غالب کے خط میں منظر کشی کی مثال ملاحظہ کریں

میر مہدی مجروح کو خط میں لکھتے ہیں

برسات کا حال نہ پوچھو خدا کا قہر ہے۔ قاسم جان کی گلی سعادت خان کی نہر ہے۔ جس میں میں رہتا ہوں عالم بیگ کے کٹرے کے سامنے دروازہ ہے۔ مسجد کے دالان کا دروازہ جو تھا گر گیا۔ سیڑھیاں گرا چاہتی ہیں۔ صبح کے بیٹھنے کا حجرہ جھک رہا ہے۔چھتیں چلھنی ہوگئی ہیں۔

مرزا کے ہاں سیاسی حالات و واقعات کا بیان بھی ملتا ہے۔ وہ اپنے خطوط میں خاص طور پر انگریزوں کا ذکر کرکے اپنے دور کی سیاست کا بیان کرتے ہیں۔ بات ظاہر ہے کہ مرزا کے دور میں انگریزوں کا قبضہ تھا۔ انگریزوں کی حکومت تھی۔ مشرقیوں کی کوئی اہمییت باقی نہ تھی۔ سب سے بڑی اذیت یہی ہوتی ہے کہ ملک اپنا ہو اور حکومت کسی اور کی غالب سیاست کے بارے میں علاؤالدین خان کو خط میں لکھتے ہیں

کل تمہارے خط میں دوبارہ یہ کلمہ مرقوم دیکھا کہ دلی بڑا شہر ہے۔ ہر قسم کے وہاں آدمی ہوں گے۔ یہ وہی دلی نہیں جس میں پیدا ہوئے۔ یہ لیگ کیمپ ہے جو گوروں کے ہاتھوں برباد ہوا۔

غالب کے عہد کی عکاسی ان کے خطوط میں ملتی ہے۔ جب وہ خط لکھتے ہیں تو اپنے دور کو سامنے رکھتے ہیں۔ غالب خطوط کے ذریعے خبر نویسی کا کام بھی کیا کرتے تھے اور وہ خبر نویسی اپنے دوستوں کے بارے میں تھی۔ جہاں انھیں محسوس ہوتا کہ خبر دینا ضروری عمل ہے۔ وہاں پر وہ اس فن کا مظاہرہ بھی کرتے۔ میر مہدی مجروح کے نام خط

میرٹھ سے آکر دیکھا یہاں بڑی شدت ہے۔ گوروں کی پاسبانی پر قناعت نہیں ہے۔ لاہوری دروازے کا تھانے دار مونڈھا بچھا کر سڑک پر بیٹھا ہے۔ میرا نکلنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ گوروں کی آنکھ سے بچنا اب مشکل ہے۔

مرزا غالب کے خطوط میں طنز و مزاح کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ الطاف حسین حالی نے غالب کو حیوان ظریف اسی بنا پر کہا ہے کہ ان کے خطوں میں مزاح پایا جاتا ہے مرزا کی نثر میں ظرافت کے عناصر ملتے ہیں۔ حسین علی کے نام خط

وہ حسین علی خان جس کا روزمرہ ہے کھلونے منگوا دو۔ میں جب بازار جاؤں گا ۔اس کے لیے اعلیٰ قسم کا کھلونا لاؤں گا۔

شکوہ اور معذرت بھی غالب کے خطوط کا خاصا ہے۔لیکن شکوے کا انداز منفرد ہے۔ شکوہ کرتے ہوئے بعض دفعہ تو خط میں ایسے جتلاتے ہیں جیسے کہ وہ شکوہ نہیں کر رہے مرزا کی نثر میں شکوہ کی بھرپور تعریف ملتی ہے۔ نواب علائی کے نام خط لکھتے ہیں

بندہ پرور فقیر شکوے سے برا نہیں مانتا۔ مگر شکوے کے فن کے سوائے مجھے کوئی نہیں جانتا۔ شکوے کی خوبی یہ ہے کہ براہ راست سے منہ موڑا جائے دوسرا جواب کی گنجائش نہ چھوڑی جائے صحیح معنوں میں یہی شکوہ ہے۔

 

غالب نے اپنے خطوط میں ہندوستانی مذاہب اور رسم و رواج پر بھی بہت گہری نظر ڈالی ہے۔ ان رسموں رواج میں عید ہولی دیوالی نماز شامل ہیں۔ مرزا انگریزوں سے تنگ آکر بھی بھائی چارے کے عادی ہیں۔ انہوں نے اپنے خطوط میں ہندو مذہب کا بھی پرچار کیا۔ مرزا ہر گو پال تفتہ کے نام خط میں لکھتے ہیں

پھاگن چیت بیساکھ نہیں معلوم ہولی کس مہینے میں ہوتی ہے۔ پہلے تو ہولی چیت میں ہوا کرتی تھی لیکن اب معلوم نہیں تاریخیں کہنے میں گھبراتے ہیں۔ پھر بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔مرزا نے اپنی تحریروں میں اپنے دور کی شخصیات کی نقالی بھی کی ہے۔ مرزا اپنی تحریروں میں لطافت پیدا کرنے کے لیے ایسے جملے بول جاتے ہیں جن کو پڑھ کر ہنسی اور شگفتگی کا سماں بندھ جاتا ہے۔ غالب نقالی میں بھی غالب ہیں۔ ان جیسی نقل بھی کوئی نہیں اتار سکتا۔ مرزا اپنی بیگم کی نقالی بھی کرتے ہیں اور انہیں وفادار بیگ کے نام سے بلاتے ہیں۔ حسین علی خان کو خط لکھتے وقت مرزا بیگم کی نقالی کرتے ہوئے لکھتے ہیں

باہر نکلے گی تو سودا لائے گی مگر خلیق اور ملنسار ہے۔ راستہ چلتے ہوئے باتیں کرتی پھرتی ہے۔ جب وہ گھر سے نکلے گی ممکن نہیں کس طرف جائے گی۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter