غلام عباس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے لاہور سے انٹر اور علوم شرقیہ
کی تعلیم حاصل کی اور
1925ء میں اپنا لکھنے کا سفر
شروع کیا۔ ابتدا میں بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھیں جو کتابی صورت میں "دارالاشاعت پنجاب” سے شائع ہوئیں اور غیر ملکی افسانوں کے اردو میں ترجمے کیے۔ 1927ء میں انہوں نےامتیاز علی تاج کے ساتھ ان کے رسالے "پھول” اور "تہذیب نسواں” میں معاون مدیر کی حثییت سے کام کیا۔ آپ 1938ء میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ ریڈیو کے ہندی اردو رسالے "آواز” اور "سارنگ” انہی کی ادارت میں شائع ہوئے۔
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد آپ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔ انہوں نے ریڈیو کے رسالے "آہنگ” کی ادارت کی۔1949ء میں کچھ عرصہ مرکزی
وزارت و اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوکر بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کے خدمات سر انجام دیں۔ 1949ء میں ہی بی بی سی لندن سے
وابستہ ہوگئے۔
1952ء میں واپس پاکستان لوٹ آئے اور آہنگ” کے ادارتی امور سے وابستہ ہو گئے۔
1961ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔
ان کا یکم نومبر 1982ء کو لاہور میں انتقال ہوا ۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "آنندی” 1947ء میں مکتبہ جدید لاہور سے شائع ہوا۔ ان کا
دوسرا افسانوی مجموعہ
"جاڑے کی چاندنی” جولائی 1960ء میں شائع ہوا۔ ان کا تیسرا افسانوی مجموعہ "کن رس” 1969ء میں شائع ہوا جبکہ ان کے ناول کا نام "گوندنی والا تکیہ” ہے۔
غلام عباس کے شاہکار افسانوں میں سے ایک افسانہ "اوور کوٹ” ہے۔اس کی کہانی مختصراً یہ ہے کہ ایک نوجوان مال روڈ پر بڑی شان سے چہل قدمی کی مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا جب میکلوڈ روڈ پر پہنچتا ہے تو ایک اینٹوں سے بھرا ہوا ٹرک اسے فوری طور پر موت کی آغوش میں دے دیتا ہے۔ وہ خون سے لت بہت ہوجاتا ہے۔ ہسپتال میں جب اس کے کپڑے اتارے جاتے ہیں تو اس کی حقیقت سامنے کھلتی ہے۔ درحقیقت وہ مالی طور پر ایسے حلیے کا حامل نہ تھا بلکہ اس نے حالت ایسی بنائی ہوئی تھی۔ حادثہ کے بعد جب اسے ہسپتال میں سنگ مر مر کی میز پر لٹا کر اس کا اوور کوٹ اتارا گیا تو مس گل اور مس شہناز حیران ہو گئیں۔ نکٹائی تو دور کی بات’ سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ جب اوور کوٹ ہٹایا گیا تو نیچے ایک پھٹی پرانی بنیان تھی۔ جس میں بڑے بڑے سوراخ تھے۔اس نوجوان کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ پچھلے دو ماہ سے نہیں نہایا۔ گردن صاف اس پر ہلکاہلکا پاؤڈر لگا ہوا تھا۔ پھر جب پتلون کی باری آئی تو وہ نکٹائی اور بکسوؤں سے بندھی ہوی تھی۔ جب جرابوں کی طرف دیکھا گیا تو دونوں جرابیں رنگ اور ڈیزائن میں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ جب اُس کے کپڑے اتارے جارہے تھے تو اُس کا چہرہ دیوار کی طرف ہو گیا۔
غلام عباس کے افسانوں کا پلاٹ بہت جاندار اور منفرد ہوتا ہے۔ واقعات کی ترتیب اور بنت کاری اسے مزید پر تاثیر بنا دیتا ہے۔ ایک بہترین افسانے کی اصل خوبی بھی اس کا بہترین پلاٹ ہوتا ہے کیونکہ پوری کہانی پلاٹ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اسی لیے افسانے کا فنی تجزیہ کرتے ہوئے پلاٹ کا مربوط ہونا بہت ضروری ہے یعنی اگر پلاٹ کے تمام واقعات میں تسلسل پایا جائے تب ہی افسانہ تجزیئے کے اصولوں پر پورا اترتا ہے ۔ غلام عباس کی افسانہ نگاری میں پلاٹ ہمیشہ بہت منفرد اور مربوط نوعیت کا ہوتا ہے۔
اگر ہم افسانہ اوورکوٹ کو اسلوب کے معیار پر پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ میں جزئیات نگاری اور منظر نگاری پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ صرف اوور کوٹ ہی نہیں بلکہ غلام عباس کے تمام افسانوں ان دو عناصر کے ساتھ ساتھ علامتی انداز بھی اپنایا گیا ہے۔ اس افسانے میں انہوں نے "اوورکوٹ” کو بطور ایک علامت استعمال کیا ہے۔یہ علامت معاشرے میں منافق اور دوغلا پن رکھنے والے لوگوں کو ظاہر کر رہی ہے۔
نوجوان کے ہاتھ میں "بید کی چھڑی” طاقتور اور بااختیار ہونے کی علامت ہے۔ گویا وہ نوجوان بہت بڑے عہدے پر فائز ہو۔
جزئیات نگاری کو غلام عباس کے افسانوں میں اہم مقام حاصل ہے۔ وہ افسانہ لکھتے ہوئے ہر ہر جزو کو بہت تفصیل سے اور ہر پہلو سے بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ ہر چھوٹی سی چھوٹی بات اور ہر بڑے سے بڑے پہلو پر تفصیلی روشنی ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ اوور کوٹ میں جزئیات کا بیان واضح طور پر موجود ہے۔
غلام عباس کے افسانوں میں منظر نگاری کے جوہر بھی نظر آتے ہیں۔ وہ کہانی کو حقیقی طور پر اس کے اپنے ماحول میں بیان کرتے ہیں۔ جیسا کہ افسانہ اوور کوٹ میں، لاہور کی معروف اور تاریخی سٹرک "مال روڈ” کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مصنف نے سڑک کے مصروف ہونے، ہر طرح کے لوگوں کے سڑک پر موجود ہونے ، سڑک کے دو اطراف میں موجود تاریخی اور اہم ترین مقامات و عمارات کا ذکر شامل کیا ہے۔
اگر ہم افسانہ اوور کوٹ کی کردار نگاری پر غور کریں تو یہ ہمیں اپنے معاشرے کے اردگرد کے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ خوش پوش نوجوان مضبوط اعصاب اور زندگی کو ہر حال میں بھر پور طور پر جینے والے افراد کا نمائندہ کردار ہے۔ جو لوگ اپنی غربت اور محرومیوں کو شکست دے کر آگے بڑھتے ہیں، معاشرہ انہی افراد سے متاثر ہوتا ہے۔ مادیت پرستی نے زندگی کو پرکھنے کے معیارات بدل کر رکھ دئیے ہیں۔ اب انسان کی ظاہری حالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اس کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھنا ہے یا اسے نظروں سے ہی گرا دینا ہے!!!
قالین کی دکان پر دکاندار کا، نوجوان کا پرجوش انداز میں خیر مقدم کرنا، اپنے کاروبار کو عملی طور پر آگے بڑھانے والے با اخلاق دکاندار طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ازدواجی زندگی کی ابتدائی ایام خواب و خیال اور محبت کے جذبات سے لبریز ہوتے ہیں۔ اسی پہلو کی عکاسی اس نوجوان شادی شدہ جوڑے کے کردار کرتے ہیں۔انسان دوستی کا عنصر بھی افسانے کا حصہ ہے۔ چھوٹی سفید بلی کو سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے دیکھ کر’ نوجوان کا اس کی طرف مثبت انداز ‘ جانوروں کے ساتھ ہمدردی اور رحمدلی کرنے کا عکاس ہے۔
اس زندگی کی ناپائیداری کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔
انسان چاہے جتنی بھی پرسکون اور عیش و عشرت سے بھر پور زندگی گزار لے لیکن انجام موت ہے۔ تب نیک اعمال کے سوا کوئی بھی اسکا ہمسر نہیں ہوتا۔ زمین پر بے فکر زندگی گزارنے والا انسان۔۔۔۔ بستر مرگ پر بہت بے بس سوتا ہے۔
"بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مرمر کی میز پر بے جان پڑا ہو ا تھا۔ اس کا چہرہ
جو پہلے چھت کی سمت تھا، کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف ہو چکا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔”
( بحوالہ اوور کوٹ)
مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غلام عباس کے افسانے زندگی کے تلخ حقائق اور عام آدمی کی زندگی کے بھرپور عکاسی ہیں۔
آپ کی راۓ