مذہب ہر ذی شعور اور بے شعور انسان کو عزیز ترین ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر مر مٹنا اور جان نثار کرنا ہر مذہب کے ماننے والے کے لیے فخر کی بات ہے۔ فخر کا یہ ہلالِ امتیاز آج کل پاکستان میں رجسٹریشن کے لیے اوپن ہے۔ جو مذہب کے نام پر مرنا چاہتا ہے اور مر کر ہمیشہ کے لیے پاکستانی عوام میں شہید کا مرتبہ پانا چاہتا ہے وہ دُنیا کے کسی بھی خطے میں ہو؛پاکستان میں آئے اور مر کر ہمیشہ کے لیے شہید ہو جائے ۔ اس کو شہادت کے مرتبے پر فائز کیا جائے گا۔ اس سے بڑھ کر اس کے پورے خاندان کو ہر قسم کی دُنیاوی سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ دو سال کے اندر اس کی مٹی کی قبر کو ایک عالی شان مقبرے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔اس مقبرے پر شہادت کی برسی پر میلے نما عرس کا انعقاد کیا جائے گا جہاں ہر قسم کے تعویذ ،تبرکات،نشہ جات اور دُنیاوی آسائشات کی سہولیات میسر ہو ں گی۔ پاکستان میں گذشتہ ستر برسوں میں مذہب پر قربان ہونے والوں کو ہزاروں کی تعداد میں اسی طرح کا پروٹوکول دیا گیا ہے جس سے انکار اور تردید میں ثبوت فراہم کرنے کی مجھ میں سکت نہیں کیونکہ میں نے اکثر و بیشتر مزارات و مقابر پر اسی طرح کا شغل تسلسل سے جاری دیکھا ہے۔ میرا مقصد برصغیر پاک و ہند کے متصوفانہ شخصیات کے مزارات کو نشانہ بنانا مقصود نہیں بلکہ پاکستان میں کسی کے ذاتی مفاد پر قربان ہونے والے مہروں کو بطور شہید قرار دے کر ان کی قبور کو مزارات میں تبدیل کر کے بطور ثبوت مہمیز کرنے پر نشتر زنی کرنا ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان میں چند ہفتوں کے بعد مذہبی انتہا پسندی کے مظاہر رپورٹ ہوتے ہیں۔ ان واقعات کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ پھر انھیں میڈیا کے وساطت سے لانچ کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی پوری دُنیا میں مسخ شدہ مذہبی صورتحال کو دکھا کر اپنے مفاد کا تحفظ کیا جاتا ہے۔پاکستان کو بنانے والوں نے اس ملک کی بنیاد جس نظریے پر رکھی تھی وہ بہت سادہ،آسان اور عملی تھا۔ نظریہ یہ تھا کہ ہم ایک ایسا خطہ چاہتے ہیں جہاں ہم دین کے مطابق اپنی زندگی کے جملہ معاملات کو چلا سکیں ۔اس سادہ اور آسان نظریے پر لاکھوں معصوم،بے گناہ اور بے خبر مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ سرحد کے دونوں طرف مرنے والوں کی تعداد ہر قسم کے محتاط اندازے کے مطابق تیس لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے جسے ہر مورخ نے اپنے اپنے اندازمیں ثبوت کے ساتھ رپورٹ کیا ہے۔ دُنیا کی سب سے بڑی خونی اس ہجرت میں صرف مسلمان نہیں تھے بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی ،جین مت،بدھ مت کے ساتھ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد بھی پاکستان آئی تھی جنھیں قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے وعدے اور تسلیاں دلائیں تھیں کہ اس ملک میں سب کی جان،مال،عزت اور اور جائیداد و مذہب و اطوار کا خیال رکھا جائے گا اور قانون ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے گا۔ ملک کے بنتے ہی ملک ٹوٹنے لگا ۔مذہبی درندوں نے اس کی جڑیں اکھاڑنا شروع کیں۔ قیامِ پاکستان کے دو سال کے اندر ریپ،مذہبی انتہا پسندی،جلاؤ گھیراؤ،لوٹ مار کا ایسا بازار گرم ہوا کہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر آنے والے مولانا ابو کلام آزاد کی چیخ و پکار کو خواب میں سن کر ہڑبڑا جاتے اور خود بھی رونے لگتے کہ ہمارے ساتھ دن دہاڑے دھوکا ہو گیا ۔ہم نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ جس سحر کا یہ انتظار تھا یہ وہ سحر تو نہیں ہے۔ خیر کبھی نہ ختم ہونے والا ظلم و جبریت کا یہ سلسلہ 2023 تک ستتر برس کی عمر میں ہٹا کٹا اور ناقابلِ شکست سورما بن چکا ہے۔ پاکستان میں ایک عام،معمولی، جاہل،ان پڑھ انسان مذہب کے حوالے سے کیا معلومات رکھتا ہے اور یہ رب،دُنیا، کائنات، جنت، دوزخ، اعمال،نیکی،خیر، برائی،حقوق وغیرہ کے بارے میں کیا جانتا ہے۔ اس کے بارے میں کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پاکستان میں مذہبی بیانیے کس طرح پنپتے ہیں اور اس کی بیخ کنی کس طرح ممکن ہے۔ اس پر سوچنے والے اربوں کھا گئے،اس پر لکھنے والوں لاکھوں ہڑپ گئے۔ اس پر بولنے والے گرین کارڈ لے اُڑے،اس پر احتجاج کرنے والے ملک چھوڑ گئے۔ اس پر خاموش رہنے والے مجرم بن گئے۔ اس پر کچھ نہ کہنے والے سب کچھ کہہ گئے۔ پاکستان کے پانچ بڑے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ مذہبی و فرقہ ورانہ انتہا پسندی کا ہے جس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے ریاست کی طرف سے کوئی ٹھوس اور قطعی اقدام ہنوز سامنے نہیں آسکا۔ بل بہت پاس ہوئے۔ قانون کی پوری کتاب بھری پڑی ہے۔ تھانوں میں ہزاروں کیس موجود ہے۔ سزاپانے والے سیکڑوں جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ سڑکیں احتجاج سے آئے روز گندی ہوتی ہیں۔اس مسئلہ کا حل بحرحال کوئی نہیں نکل سکا۔ سوشل میڈیا کا کمال یہ ہے کہ اس بندر کے ہاتھ میں ماچس آگئی ہے اور یہ جنگل نما پاکستانی معاشرے کو جلانے پر تُلا بیٹھا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں مسلمانوں نے عیسائی برادری اور ہندو برادری پر جو ظلم و جبر کیا ہے اسے ہر سطح پر رپورٹ کیا گیا ہے۔احتجاج سے لے کر سزا تک سارا معاملہ ہوا لیکن نتیجہ صفر بٹا صفر نکلا۔ میری تعلیم پی ایچ ۔ڈی ہے۔ میں ۱۷ ویں سکیل کاملازم ہوں۔ میری ماہانہ آمدنی لاکھ روپیہ ہے۔ دومرلہ کا گھر ہے۔ ایک بیوی ہے اور ایک بیٹی ہے۔ یہ میرا مختصر تعارف ہے۔ اس مختصر تعارف میں بہ حیثیت مسلمان میرا تعارف موجود نہیں ۔ میں خود کو بطور کیس سٹڈی بناکر آپ کو بتاتا ہوں کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کس طرح لاشعوری اور خودساختہ پنپتی ہے۔ میرا بچپن ،لڑکپن اور جوانی کا اوائل حصہ گاؤں میں گزرا ہے۔ مجھے یاد ہے۔ پہلے دن مسجد کے جس مولوی سے پڑھا تھا ۔ مولوی صاحب کے پاس جب مجھے لے جایا گیا تو اُنھوں نے غراتے ہوئے مجھے دیکھاتو سانس خشک ہو گیا۔ ایک لمبی لائن میں بیٹھے بچوں کے درمیان بٹھا دیا گیا اور کہا کہ یہ الف،ب۔ت ہے اس کو الف،با،تا پڑھو اور اونچی آوازمیں پڑھو،میں نے پون گھنٹا الف،با،تا اونچی آوازمیں پڑھا اور پھر ناظرہ پڑھنے کا یہ معمول دو برس جاری رہا۔ اماں کا یہ کام تھا کہ بستر سے اُٹھا دیا اور مسجد تک چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اُن کی ذمہ داری ختم ہوجاتی تھی۔ دو سال ناظرہ پڑھا لیکن مکمل نہ ہوا۔اس کی وجہ بیس کے قریب مولوی صاحبان کا معمولی مسلکی جھگڑے کو طول دینے کی بنیاد پر نکالا جانا تھا۔ مسجد کے علاوہ گھروں میں باجیوں سے بھی ناظرہ پڑھنے کی کوشش کی لیکن آگے نہ چل سکا۔جس باجی کے پاس بٹھایا جاتا وہ الف،با،تا سے شروع کرواتی ۔اس عمل نے میرا وقت ضائع کیا اور مجھے عربی پڑھنے سے متنفر بھی کیا۔ ڈانٹ ڈپٹ اور اوپر تلے کے کام کی اذیت علاحدہ ہوتی تھی۔ پانچ سال ابا نے ایک دن پوچھا کہ ناظرہ پڑھ لیا ہے اور کس پارہ پر ہو۔میں نے کیا کہنا تھا۔ خاموش رہا۔ اس خاموشی کا انعام جو ملا وہ دیہاتی پس منظر رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ مسجد اور باجیوں کی قید سے رہائی ملنے کے بعد مدرسہ میں داخل کروایا تو پھر الف،با،تا سے شروع کروایا ۔یہ مولویوں کو پتہ نہیں کیا عادت تھی کہ ہر کوئی شروع سے لگوا دیتا اور پھر بیچ رستے چھوڑ بھاگ جاتا۔مجھے اس سے چِڑ تھی۔ پندرہ سالہ اس سفر میں قرآنی تعلیم پہلے تین سپاروں تک محدود رہی جس میں ہزار ہا اغلا ط موجود رہیں۔ ایک دن میں نے گھر والوں کو کہہ دیا کہ قرآ ن ختم کر دیا ہے۔ بہت خوشی منائی گئی۔مولوی کو قیمتی سوٹ مل گیا،بچوں کو زردہ چال اور مجھے اس قید و اذیت سے رہائی۔اس کے بعد کبھی مسجد و مدرسہ اور مولوی کی شکل نہ دیکھی۔ دنیاوی تعلیم میں اس قدر کھوئے کہ پھر کبھی مذہبی تعلیم کی تکمیل کا خیال ہی نہ آیا۔ دو چار سورتیں یاد کر لیں اور دوستوں،بزرگوں کی محافل میں کچے پکے شریعت کے مسئلے سن کر خود کو یہ تاثر دے لیا کہ ہم پکے والے مسلمان ہیں اور مزید کچھ جاننے کی ضرورت نہیں۔ کلمہ محمدی پڑھنے والے پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔ اللہ اللہ،خیر سلیٰ۔ سکول سے یونی ورسٹی اور یونی ورسٹی سے عملی زندگی اور پھر خانگی زندگی کے تیس سالہ سفر میں مذہبی شعور کے حوالے سے کسی کسک،ندامت، شرمساری اور احساسِ زیاں کا تصور تک نہ آیا۔ زندگی اچھی گزر رہی ہے اور سب ٹھیک ہے۔ میرا مذہبی بیانیہ جو تشکیل پایا تھا وہ یہ تھا کہ میں اہل سنت والجماعت یعنی پکا سُنی ہوں۔میرے علاوہ باقی سب کافر ہیں۔ ان کی مسجدوں میں جانا ،ان سے ملنا اور کھانا پینا سب حرام ہے۔ ہمارے پیغمبر ؐ نے ہماری پیشگی بخشش کروا لی ہے۔ قیامت کے دن ہم اپنے پیغمبرؐ کے جھنڈے تلے ہوں گے اور جنت ہماری ہوگی۔ یہ مذہبی بیانیہ اس قدر محکم ،مستقل اور انمٹ تھا کہ اس وقت اس بیانیے کا ایٹم بم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کا عملی مظاہرہ یہ واقعہ ہے ۔میں بی اے کا طالب علم تھا۔ ایک دن محلے کے بزرگوں میں بیٹھا تھا کہ کسی نے آکر کہا کہ مسجد میں دیو بندیوں کا قافلہ آیا ہوا ہے ۔ میں نے کسی بزرگ سے یہ سُن رکھا تھا کہ دیو بندی کافر ہیں اور پلیت ہیں ۔یہ کلمہ پڑھا کر اپنے گروپ میں شامل کرتے ہیں اور پھر اسلام خراب کر دیتے ہیں۔ان سے دور رہنا چاہیے۔ میں مسلکی جذبے کی حُرمت کے اُبال سے فوراً اُٹھا اور مسجد کے امام کے پاس گیا کہ ہماری مسجد میں دیو بندیوں کا قافلہ ابھی ابھی آکر ٹھہرا ہے۔آپ نے انھیں مسجد میں داخل کیسے ہونے دیا۔یہ تو پلیت ،ناپاک اور کافر ہیں۔ امام صاحب نے کہا مجھے نہیں معلوم ۔میں نے کہا آپ انھیں جا کر باہر نکالیں۔ہمیں پوری مسجد دُھونا پڑ جائے گی۔ امام صاحب ادھر اُدھر جھانکنے لگے اور کسی اوربات سے میرا دھیان بانٹنے کی کوشش کی لیکن میں بضد تھا کہ دیو بندیوں کو مسجد سے نکالنا ہے۔آپ میرے ساتھ چلو۔ امام صاحب نے کہاتم چلو میں پیچھے پیچھے آتا ہوں۔ میں فوراً آستین چڑھائے مسجد کی طرف چل پڑا ۔مُڑ،مُڑ کر دیکھتا جاتا کہ امام صاحب آرہے ہیں یا نہیں۔ امام صاحب دکھائی نہ دئیے تو سوچا یہ معمولی ساکام میں خود ہی کر لوں گا۔ میں مسجد میں داخل ہوا۔ میرے سامنے چھے لوگ کھڑے ابھی یہ طے کر رہے تھے کہ کھانا کھایا جائے یا کچھ دیر آرام کیا جائے۔ میں نے جاتے ہی ان سے کہا کہ آپ کا امیر کون ہے۔ میں نے سُن رکھا تھا کہ ایک امیر ہوتا ہے جس کا یہ سب کہنا مانتے ہیں۔ ایک صاحب نے کہا میں فرمائیے ! میں امیر ہوں۔کیا کہنا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ اپنا سامان اُٹھائیں اور یہاں سے غائب ہوجائیں ورنہ میں بُرا پیش آؤں گا۔ یہ ہماری مسجد ہے اس میں ہم ہی نماز پڑھ سکتے ہیں،عبادت کر سکتے ہیں ۔آپ کی کیسے جرات ہوئی کہ یہاں اندر چلے آئے۔ امام صاحب بھی میرے پیچھے آرہے ہیں۔چلو یہاں سے ۔نکلو باہر۔ امیر صاحب نے مجھے دیکھا اور اپنے ساتھیوں کو دیکھا۔ کچھ سوچا ہوگا پھر کہنے لگے کہ اچھا بھائی ! ہم چلے جاتے ہیں۔ آپ ناراض نہ ہوں۔ امیر نے ساتھیوں سے کہا کہ چلو یہاں سے۔ وہ سب آناً فاناً مسجد سے نکل گئے۔ میں فرطِ مسرت سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ امام صاحب کو آکر کہا کہ میں اُن کو نکال آیا ہوں۔ اُنھوں نے ٹھنڈا سا جواب دیا ۔اچھا۔ٹھیک ہے۔ میرے دل میں کچھ کھٹکا کہ امام صاحب نے مجھےشاباش نہیں دی اور کمر نہیں تھپکی۔کافی دن میں سوچتا رہا پھر بھول بھال گیا۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں جو مجھ سے اور میرے ساتھیوں اور ارد گرد کے محلے دار شناساؤں سے ہوئے ہوں گے جن پر زمانہ جہالت میں ہم فخر کیا کرتے تھے۔ یہ ایک کیس سٹڈی کے طور پر واقعہ نقل کیا ہے جس سے زمانہ جہالت میں میرا مذہبی بیانیے کی شدت یعنی مسلکی انتہا پسندی کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مدت بعد جب ملازمت میں آیا اور لاہور میں مقیم ہوا اور دوستوں احباب اور دیگر مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والوں سے ملا تو سمجھ میں آیا کہ میں تو ابو جہل ہوں اور زمانہ جہالت میں رہ رہا ہوں۔ جو کچھ سنا، سمجھا،پڑھا اور ذہن نشین تھا رفتہ رفتہ سب کچھ بھلایا اور از سر نو اسلام کی مبادیات کو سمجھا۔ سبھی مسالک کے غیر جابندار نمائندہ مبلغین کی تحریر و تقاریر کو سُنا اور اسلام کے علاوہ مذاہب سمیت جملہ تقابل ادیان کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ دینِ اسلام کی اصل اساس کیا ہے اور اس کی بنیاد میں کن عوامل و عناصر کی کارفرمائی ہے۔ سابقہ زندگی کے جملہ معاملات سے توبہ کی اور تائب ہو کر دینِ اسلام کی اصل اساس سے متصل دینیات کو پریکٹس میں لیا اور آج ہر طرح کے مسلکی و فرقہ ورانہ معاملات میں متوازن اور مبنی بر حقیقت دلیل و رائے دینے کی صلاحیت سے رب تعالیٰ نے بہر ہ ور کیا ہے۔ اس مفصل تمہید کا مآحصل یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان اپنے مسلکی کنویں سے باہر نہیں نکلتے ۔ان کی مذہبی تربیت صفر بٹا صفر ہے۔ انھیں بالکل نہیں علم کہ دین ِ اسلام کی اساس کیا ہے اور اسلام کس چیز کی ترغیب دیتا ہے۔ غیر مسلموں کے حقوق کے اس بہکے ٹولے کو الف ب بھی نہیں پڑھائی گئی۔ ان نوجوانوں کو گلی محلے کے مدرسوں سے بھاگے ہوئے کچے ذہن اور خام معلومات کے حامل امامین نے پیٹ پوجا کے لیے اپنے چُنگل میں پھنسایا ہوا ہے۔ بنی ؐکےنام پر مر مٹ کر جان دینے سے جنت کا مل جانا اور شہرت دائمی حاصل ہو جانا بظاہر ایک پُرکشش اور مثالی جذبہ ہے لیکن اس میں کتنی سچائی ہے ۔یہ کوئی نہیں جانتا۔ جو جانتے ہیں وہ بتلاتے نہیں ہے۔ اپنے اپنے مسلک کو سچا کہنا اور اپنے کنویں کے پانی کو پاکیزہ کہنا اور دوسروں کو کفر و شرک و الحاد کی کسوٹی پر پرکھنا اس قوم کا وتیرہ بن چکا ہے۔ ریاست نے اگر اس معاملے میں سختی سے عمل داری کو یقینی نہ بنایا تو وہ وقت دور نہیں جب ہر کوئی خود کو اصلی مسلمان اور دوسرے کو نقلی ،جعلی،کفری اور رذیلی مسلمان کہے گا اور بالجبر تسلیم کروانے اور اپنی رائے نافذ العمل کروانے کے لیے جان سے مارڈالنے سے گریز نہیں کرے گا۔ غیر مسلم طبقہ تو پہلے ہی ہمارے ہاتھوں اتنا ذلیل اور تباہ و برباد ہو چکا ہے کہ مزید ذلت اُٹھانے کی ان میں سکت نہیں رہی۔پاکستانی مسلمانوں نے غیر مسلم کو یہ تاثر دیا ہے کہ آپ ہمارے غلام ہیں اور کیڑے مکوڑے ہیں ۔ہمارا جب دل چاہے گا ۔ہم آپ کو پاؤں تلے کچل ڈالیں گے۔ تم ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کی مقدس کتاب میں کیا لکھا ہے ۔بس ہم جو جانتے ہیں وہی سچ ہے ،برحق ہے اور حق کا حق ہے اور یہی حق ہے اور جو بھی اس حق کے درمیان حائل ہوگا اُسے ہم کاٹ ڈالیں،جلا ڈالیں،نیست و نابود کر دیں گے۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ مسلمان برادری غیر مسلم پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتے توڑتے حواس سے عاری ہر اپنے آپ کو مارنا شروع نہ کر دیں۔مساوات،توازن، عدل اور حقوق کے تحفظ سے عاری معاشرہ جنگل کے چیڑ پھاڑ کرنے والے درندے کی طرح ہے جس کی نظر میں ہر چیز پیٹ کا نوالہ ہے جس پر کسی اور کا وقطعاً کوئی حق نہیں ہے۔ پاکستان کے ہر مذہبی مبلغ،اُستاد ،سیاست دان،مدبر،محقق، معتبر،بزرگ اور باشعور سے دست بستہ التجا ہے کہ پہلے اپنے قبلے درست کریں،اپنے روئیوں میں اعتدال لائیں۔مذہبی منافرت کی تشریح و توضیح سے گریز کریں۔ تعمیری بحث کی گنجائش پیدا کریں۔ اختلا فِ رائے کا احترام کرنا سیکھیں۔ حقوق کی ادائیگی اور تحفیظ کی فراہمی کو یقینی بنانے کی راہ اُستوار کریں۔یہ سب کرنے کے بعد اس ہجومِ یاس کو جہاں تک ممکن ہے راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ یہ کام کسی بیرونی ملک اور باہر کی دُنیا اور اندر کی طاقت نے نہیں کرنا بلکہ شمع سے شمع جلانے کا یہ عمل آپ نے خود کرنا ہے۔ جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے اس ہجومِ میں آپ موجود ہوتے ہیں ۔آپ کی موجودگی اس ہجوم کو پُر تشدد بناتی ہے اور چنگاری کو الاؤ بننے کی مہمیز فراہم کرتی ہے۔ یہ ملک ہم نے دین کے نام پر لیا ہے۔ جس دین کا ہم نے رب سے وعدہ کیا ہے۔آج اُس کی عمل داری دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ رب تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز اور بے نیاز ہے۔ کیا پتہ اگلی باری ہماری ہو!!!!!
آپ کی راۓ