سانحہ جڑانوالہ نے میرے ذہن میں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ آج کل میں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بطور مسلمان میرا عقیدہ پختہ مسلمانوں والا ہی ہے۔ میرا گھرانہ اہل سنت مسلک سے متصل ہے اور بچپن سے ہنو;ز اسلام کی توضیح کو بعینہ سمجھا اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ ہمارا گھرانہ زمیندارانہ ہے۔ میرے دادا جان اور نانا جان گاؤں میں زمین داری کرتے تھے۔ ان کے پاس عیسائی برادری کے بیشتر افراد کام کاج کے سلسلے میں ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ میرے دادا کے پاس ایک معمر عیسائی کو میں برابر دیکھتا تھا۔ دادا سے فطری لگاؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے میرا بچپن ان کے ساتھ گزرا۔ شب و روز کے معمول کو دیکھا ۔ دادا کا حقہ یہی عیسائی معمر گرم کیا کرتا تھا۔ گھر سے کھانا کھانے اور دیگر معاملات کی انجام دہی میں یہی عیسائی معمر کام آتا تھا۔ گویا ہمارے گھر کے سبھی معاملات میں اس عیسائی معمر شخص کی دخل اندازی بہت زیادہ تھی۔ شادی بیاہ اور خوشی غمی کے مواقع پر انھیں صاحب کو پیغام رسانی و دیگر معاملات کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ ایک دن ان کی اچانک وفات ہوگئی ۔دادا کی زبانی سُنا تھا کہ یہ صاحب کوئی پچاس برس سے ان کے ساتھ رہے اور ہر طرح نشیب و فراز میں وفاداری کو برابر نبھاتے ہوئے دُنیا سے رخصت ہوئے۔ ان صاحب کے جانے کے بعد اس کے بیٹے نے اپنے باپ کی ذمہ داریاں سنبھال لی اور ہنوز خدمت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں نے اس عیسائی معمر شخص کے گھرانے میں کبھی مسلم و غیر مسلم کی تمیز اور منافرت کی بُو کو محسوس نہیں کیا۔ کھانے پینے اُٹھنے بیٹھے اور آداب و خدمات کے معاملے میں مذہب کو کبھی حائل ہوتے نہیں دیکھا۔ میرا بچپن ایسا ہی گزرا ہے۔ دادکے ساتھ میرا معمول یہی تھا۔اس کے برعکس نانا کے ہاں ایک عیسائی شخص کا خاندان ملازمت کرتا تھا۔ نانا کا رویہ ذرا سخت تھا ۔وہ مصنوعی خلا حائل رکھتے تھے۔ بعض دفعہ ان عیسائی ملازموں کو ناحق ڈانٹ بھی دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ انھیں زیادہ منہ نہیں لگانا چاہیے۔نانا کے اس روئیے کی وجہ سے میں نانا کی حویلی میں کم جایا کرتا تھا۔ نانا کے عیسائی ملازموں میں بابا رحمو سے میری دوستی ہو گئی تھی ۔وہ مجھے گُڑ کے بُنے دانے، چھلیاں،بیر اور پکے ہوئے چِبڑ چھپا کر دیا کرتا تھا اور میں اُنھیں پانچ کلمے،سو تک گنتی،انگریزی اے بی سی اور دس تک پہاڑے سنیا کرتا تھا۔ایک دن میں نے پوچھا کہ بابا جی ! ہمارے نانا کھڑے کھڑے ڈانٹ دیتے ہیں اور آپ غصہ نہیں کرتے بلکہ جی سرکار جی سرکار کہتے ہوئے بات ٹال دیتے ہیں اور نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں پھر آجاتے ہیں؛ قریب بیٹھ جاتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔آپ کو بُرا نہیں لگتا ۔بابا رحمو نے پیار سے میرے گال پر تھپکی دی اور کہا پُتر! تم نہیں جانتے ۔تمہارے دادا تو درویش انسان ہیں وہ ہمارے ساتھ اور طرح کا برتاؤ کرتے ہیں لیکن تمہارے نانا خبردار اور سخت مزاج انسان ہیں۔ جب پاکستان بنا تھا تب میں تیرہ سال کا تھا۔ میرے بہن بھائی اور رشتہ دار؛ سکھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں راستے میں مارے گئے تھے۔ میں ایک درخت کی کھوہ میں چھپا ہوا تھا اور اس قدر سہما ہوا تھا کہ اگلے لمحے تیز دھار خنجر سے میرا کوئی گلہ کاٹ جائے گا۔ میں اسی سوچ میں گُم تھا کہ ایک دم گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سُنی کہ دوڑو اور دیکھو کہ کوئی مُسلا بچ کے بھاگ نہ جائے سب کو کاٹ ڈالو اور جو ہاتھ لگتی ہے اُسے اُٹھا لو۔ ہم فیروز پور میں رہتے تھے اور تمہارے نانا امرتسر کی منڈی میں خرید و فروخت کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ یہ مجھے تمہارے نانا نے بتایا تھا۔ میں نے پوچھا کہ جب آپ درخت کی کھوہ میں چھپے تھے تو نانا کے پاس کیسے پہنچے اور آپ کو کسی نے مارا کیوں نہیں؟با با رحمو ہنسنے لگے اور جواب میں کہنے لگے کہ پُتر !جان بچ جانےکی فکر میں درخت کی کھوہ میں چھپا ہوا تھا ۔ رات ہوگئی۔ تہجد کا وقت ہوا ہو گ؛ا جب مجھے بیلوں کے گزرنے کی آواز آئی ۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا تو چار بیل تھے اور دس بارہ چھوٹے بڑے لوگ اور دو کتے تھے اور تین چار جانور تھے ۔یہ قافلہ تیزی تیزی نامعلوم مقام کی طرف جا رہا تھا۔ میں باہر نکلا اور ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ کافی دیر تک پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ ایک دم سے کسی نے میرا گلہ پکڑا اور دبا کر پوچھا کہ کون ہو تم ؟ میں نے رونا شروع کر دیا اور میں خوف کے مارے نیچے گِر پڑا۔ ایک گرج دار آواز آئی کہ شیرے ! اینوں ماری نا! پتہ نئیں کینداں بال اے جیڑا خون دی ہولی وچ گواچ گیا اے،اینوں میرے کُول لے کے آ(اسے مت مارو ،پتہ نہیں کس کا بیٹا ہے جو اس خون کی ہولی میں گم ہو گیا ہے۔اسے میرے پاس لے کر آؤ)۔شیرا مجھے آپ کے نانا کے پاس لے آیا اور آپ کے نانا نے مجھے لالٹین کی روشنی میں غور سے دیکھا اور پوچھا کہ پُتر !کی ناں اے تیرا ؛تے توں اتیھوں تیک کینوں بچدا بچاداں آگیا ایں(بیٹا! تمہارا کیا نام ہے اور تم ہم تک بچتے بچاتے کیسے پہنچے؟)۔ میں نے وکٹر نام بتایا تو شیرے نے کہا کہ ابا اے تے عیسائیاں دا منڈا اے تے کہ کافر اے؛ اینوں مارو ،انیاں عیسائیاں نے ہندواں نال رل کے تے ساڈے مسلماناں دا بڑا خون بھایا ہے(ابا! یہ تو عیسائیوں کا لڑکا ہے اور کافر ہے،اسے مارو ،ان عیسائیوں نے ہندوؤں سے مل کر ہم مسلمانوں کا بڑا خون بہایا ہے)۔آپ کےنا نا نے کہا کہ اس وچ اِیس بال دا کی قصور اے۔ اینوں ایدی تقدیر ساڈے کول لے آئی اے؛ تے ہن اے میری امان وچ اے ۔اینوں کجھ نئیں آکھنا(اس میں اِِس بیچارے کا کیا قصور ہے۔اس کی تقدیر اِسے ہمار ےپاس لے آئی ہے اور اب یہ ہماری نگرانی میں ہے۔اسے اب کچھ نہیں کہنا)۔ اس کے بعد آپ کے نانا نے مجھے پیار سے پُچکارا اور کہا کہ پُتر ڈرنا نہیں؛ ہن تو میری نگرانی وچ اے تینوں کوئی نئیں مار سکدا ،آپاں بس تھوڑی ڈیر اچ سرحد پار کر جانی اے(بیٹا! ڈرنا نہیں ۔اب تم میری نگرانی میں ہو اور اب تمہیں کوئی نہیںمار سکتا۔ ہم کچھ دیر میں سر حد پار کر جائیں گے)۔میں نے بابا رحمو سے پوچھا ،اس کے بعد کیا ہوا۔ بابا رحمو نے کہا کہ پھر مجھے آپ کے نانا اپنے ساتھ پاکستان لے آئے ۔ اپنے بچوں کی طرح پالا پُوسا ۔میری شادی کی مجھے گھر بنا کر دیا ۔تب سے میں آپ کے نانا کے پاس ہوں ۔میں نے کہا ۔اچھا تو یہ بات ہے ۔نانا کی ڈانٹ سے آپ غصہ اس لیے نہیں کرتے کہ انھوں نے آپ کی جان بچائی تھی اور آپ کو سہارا دیا تھا۔ بابا رحمو نے کہا کہ پُتر! یسوع تو بعد کوئی شخص متَھا ٹیکن دے پُوجن دے لائق اے تے او تیرا نانا اے ؛جنیں کدی سانوں مذہب دے حوالے نال فٹے منہ نئیں آکھیاں۔ ہمیشہ عزت دتی تے کدی اے احساس نییں ہون دیتا کہ میں اک غیر مسلم آں تے قابلِ نفرت آں بلکہ مینوں اے احساس دلایا اے کہ انسان دا مذہب انسان ای ہوندا ے۔ رب سوہنے نے جس نو جو دِتا اے اُو؛ اُس نو ای سامنے رکھ دا اے۔ پُتر! تیرے نانا ورگے دو چار ہور مسلمان ہوندے تے کدی اے خون دی ہولی نہ کھیڈی جاندی ۔اے جو کجھ ہو یا اے ناں؛ اے کدی وی نئیں ہوناں سی(بیٹا! یسوع کے بعد اگر کوئی ماتھا ٹیکنے اور عبادت کے لائق ہے تو وہ تمہارے نانا ہیں۔ جنھو ں نے مذہب کے حوالے سے کبھی ہمیں نہیں جھڑکا ۔ہمیشہ عزت دی اور کبھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ میں ایک غیر مسلم ہوں اور قابلِ نفرت ہوں بلکہ مجھے یہ احساس دلایا کہ انسان کا انسا ن ہی مذہب ہوتا ہے۔ رب تعالیٰ نے جس کو جس کو جو دیا ہے وہ وہیں سامنے رکھا ہے۔ بیٹا! تمہارے ایسے دو چار مسلمان ہوتے تو کبھی یہ خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی ۔یہ جو کچھ ہوا ہے وہ کبھی نہ ہوتا)۔بابا رحمو کا یہ آخری جملہ میرے دل پر چوٹ کر گیا تھا۔ میرا بچپن اور جوانی اسی گاؤں میں گزری ہے۔ تعلیم کے حصول کے بعد ملازمت کی تلاش میں دربدر آوارگی جھیلنے کے بعد شہرِلاہورچلا آیا تو یہاں آبادی کے سمندرمیں کھو کر رہ گیا۔ ایک نجی کالج میں جز وقتی ملازمت کا سلسلہ شروع ہواتو رہائش کا مسئلہ درپیش آیا۔ ایک دن کالج کے اسٹاف سے اس معاملے پر بات ہوئی تو سب اِدھر اُدھر کی سُنا کر چلے گئے۔ اگلے دن ایک نوجوان عیسائی اُستاد شہزاد احمد جو انگریزی کے اُستاد ہیں۔ میرے پاس آئے اور حال احوال دریافت کرکے مجھے کہنے لگے: میں قریب ہی رہتا ہ؛وں جب تک رہایش کا بندوبست نہیں ہوتا ،آپ میرے گھر میں ٹھہر سکتے ہیں۔ شہرِ لاہور میں پہلی رات میں نے ایک عیسائی بظاہر اجنبی مگر کالج میٹ کے ساتھ گزاری تو رات بھر نیند نہ آئی ۔میں سوچتا رہا کہ میں بابا رحمو ہوں اور یہ میرا نانا ہے جس نے مجھے اس اجنبی شہر میں پناہ دی ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ مذہبی اجارہ داری کے نام پر مسلمان آج جو بو رہے ہیں وہ مستقبل میں کاٹیں گے۔ یہ خون کی ہولی ہے جو خون کا خراج مانگتی ہے۔ یہ خراج ہولی کھیلنے والے کو دینا پڑتا ہے۔ آپ جو کریں گے ؛وہ بھریں گے۔ دُنیا کے جملہ دانشوروں اور حاکموں نے یہ متفقہ اصول تسلیم کیا ہے کہ دُنیا میں انسان جو بوتا ہے؛ وہی کاٹتا ہے۔ مسلمانوں کو پوری دُنیا میں جس ذلت کا سامنا ہے اُس کی سبھی وجوہ خود مسلمانوں کی حرکات ہیں۔ یہ ملک ہمارے بزرگوں نے انھیں اقلیتوں سے وعدے کر کے حاصل کیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ تحریکِ آزادی میں ساتھ دو۔ہم آپ کے رکھوالے ہیں ۔ہم آپ کی جان مال،عزت کی حفاظت کریں گے۔ مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کےنام پر آج جو کچھ ہم ان اقلیتوں کے ساتھ کر رہے ہیں؛ بہت جلد یہی سلوک ان اقلیت والے اکثیرتی ملکوں میں ہمارے ساتھ ہو گا۔ بابا رحمو کی وفا داری پر شک نہ کریں،اسے موقع دیں ۔یہ کبھی آپ کو دھوکا نہیں دے گا ؛اس لیے کہ اس کے بزرگوں نے آپ کے بزرگوں کی زبان اپنا سب کچھ چھوڑ ا تھا ۔ عیسائی برادری کی اور دیگر اقلیت برادی کی ان قربانیوں کا احساس کیجیے۔یاد کھئیے! درخت اپنے تنے پر کھڑا ہوتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تنا بغاوت کردے اور چھتنار درخت منہ کے بل زمین پر آگرے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین و آسمان کے خلا میں بکھر جائے۔
آپ کی راۓ