"شمس العلماء” ڈپٹی نذیر احمد کا شمار اردو ادب کے اولین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ نذیر احمد 1836ءمیں ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی۔ انھوں نے نحو،منطق اور فلسفے کا علم نصراللہ خان صاحب سے حاصل کیا۔ اس کے بعد دہلی کی کڑے مسجد میں رہے۔ مدرسے سے تعلیم کے حصول کے بعد دہلی کالج میں داخلہ لیا ۔ انھوں نے ملازمت کا سلسلہ گجرات سے شروع کیا۔
نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ انھوں نے اپنے دور کے اہم سیاسی و سماجی مسائل کوموضوع بنایا۔ان کے ناولوں میں "مراۃ العروس” ،”بنات النعش “،”فسانۂ مبتلا”، ” ابن الوقت”، "ایامیٰ "اور "رویائے صادقہ "شامل ہیں۔
ناول” ابن الوقت “۸۸۸١ء میں منظر عام پر آیا۔اس ناول کی اشاعت” انصاری پریس ” سے ہوئی۔ اس ناول کا بنیادی مقصد سیاسی امور اور انگریزی انتظام سے متعلقہ مسائل سے پردہ ہٹانا تھا۔ مزید برآں اس ناول میں سیاس شخصیت اور سماج کے باہمی تعلق کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا ناول ابن الوقت کئ موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ ناول چونکہ انیسویں صدی میں لکھا گیا لٰہذا یہ ناول اس دور کے سیاسی و معاشرتی تصادم کی بھرپور طریقے سے عکاسی کر رہا ہےـ اس ناول کا اہم موضوع انگریزی نظام کا نفاذ اوٰرٰ اس سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔ اسی طرح انگریزوں کے تہذیبی پہلو پر بھی نظر ڈالی گئ ہےـ ہندوستانی تہذیب انگریزی تہذیب کے برعکس تھی جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کو بہت سے مسائل سے دو چار ہونا پڑا ۔ ان مسائل کا تذکرہ ناول کے پہلے حصے میں تفصیل کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔
” یہ مصیبت کس کے آگے روئیں کہ انگریزی عملداری نے ہماری دولت و ثروت، رسم و رواج، لباس، وضع، طور طریقہ،
تجارت،مزہب ،علم و ہنر، شرافت سب چیزوں پر تو پانی پھیرا ہی تھا ایک زبان تھی اب اس کا بھی یہی حال ہے۔” 1
ڈپٹی نذیر احمد نے ابن الوقت کے ذریعے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ انگریزوں کے ہر پہلو سے پردہ ہٹایا جائے ۔ رشوت کے حوالے سے ناول میں سے اقتباس ملاحظہ ہو:
” انگریزوں میں رشوت نہیں چلتی مگر ان کے حصے کی بلکہ اس سے بہت ان کے اردلی، خدمت گار، شاگرد، پیشہ پیشی کے عملےلے مرتے ہیںـ” 2
ناول میں انگلستان کے باشندوں کے روزگاری کے ذرائع بھی بتائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
"بات یہ ہے کہ انگلستان ہنر مند اور صناعی کا گھر ہے اور اس کے تمول کا بڑا ذریعہ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں تنہا ذریعہ تجارت ہے۔” 3
ہر زبان کی اپنی طرز اور اہمیت ہوتی ہے۔ڈپٹی نذیر احمد نے ناول کے آٹھویں حصے میں انگریزی زبان کی اہمیت کے تناظر میں نوبل صاحب کے ذریعے چند باتیں بیان کی ہیں۔ان باتوں کے ذریعے قاری کو زبان کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے رہنمائی ملتی ہے ـ اس حوالے سے اقتباس دیکھئے:
"انگریزی زبان کے رواج دینے سے ایک غرض تو علوم جدیدہ کا پھیلانا ہے۔” 4
ابن الوقت میں مزہبی رنگ بھی عیاں ہے۔ انگریز نظام کے نافذ العمل ہونے کی وجہ سے نماز پر بھی اثر ہوا جس کا زکر ناول میں کیا گیا ہے۔
” نماز پر تو انگریزی سوسائٹی کا کےیہ اثر دیکھا کہ پہلے وقت سے بے وقت ہوئی ،پھر نوافل،پھر سنتیں جا کر نرےفرض رہے”۔5
ناول ابن الوقت کی گیارھویں فصل میں نوبل ایک دعوت کا اہتمام کرتا ہے اور مہمانوں سے خطاب کرتا ہے۔ اس خطاب میں اسلام اور قرآن کا تذکرہ بھی ہوتا ہےـ
” ہندوستان کے باشندوں میں انگریزوں کے ساتھ ارتباط اور اختلاط کرنے والے کچھ لوگ اگر ہیں تو مسلمان ہیں کیونکہ سچا مذہب "اسلام ایسے تعصبات سے بالکل بری ہے ۔صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب یعنی قرآن مجید اس سے ساکت ہےـ” 6
ناول میں حجتہ الاسلام کو دین کا سچا پیروکار دکھایا گیا ہے۔ حجتہ الاسلام کے زریعے سے دین کی تعلیم کا خلاصہ بھی ناول میں بیان کیا گیا ہےـ
” دین جس کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے تعلقات سب ہیچ ہیں۔ جو شخص غصے کو پی جائے، انتقام نہ لے، جھوٹ نہ بولے، غیبت نہ کرے، حریص و طماع نہ ہو، جابر و سخت گیر نہ ہو ،ممسک و بخیل نہ ہو، مغرور و متکبر نہ ہو، کسی سے لڑے نہ ،جھگڑے، نہ کسی کا حسد کرے ، نہ کسی کو دیکھ کر جلے ،عافیت میں شاکر،مصیبت میں صابر ،ہنس مکھ، خلیق،بردبار ، متحمل، متواضع، منکسر ،مستغنی، نفس پر ضابط ،قانع،سیر چشم،متوکل، ثواب عافیت کا امیدوار یعنی خلاصہ یہ ہے کہ دیندار ہو، میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر کسی اور کو بھی خوشی ہو سکتی ہے-"7
ہندوستان میں چونکہ مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے تو مسلمانوں میں مختلف مزاہب کے عقائد بھی رچ بس گئے۔ ان عقائد کی وضاحت ناول میں ہزار ہا ہنود محترم کے تہوار کے زریعے کی گئ ہےـ
” ہزار ہا ہنود محترم میں جو مسلمانوں کا مشہور مذہبی تہوار ہے،تعزیہ داری کرتے ہیں، مسلمان بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتےہیں، ان سے منتیں مانگتے ہیں کہ یہ ایک قسم کی پرستش ہے۔ اسی طرح مسلمان ہندوؤں کی تقلید سے کھانے پینے کا پرہیز کرنے لگے ہیںـ”8
انگریزی نظام کے پیش نظر ہندوستانی معاشرہ بہت سے مسائل سے دو چار ہوا ـحتٰی کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیا کا حصول بھی نا ممکن ہوگیا۔ ان مسائل کا تفصیلی تذکرہ ناول میں کیا گیا ہے۔
"انگریزی عملداری سے پہلے ہم میں اکثر خوشحال تھے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ادنیٰ و اعلیٰ سب کے خرچ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔”9
انگریزوں اور ہندوستانیوں کے رسم و رواج ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کے مابین نفرت کی ایسی دیوار ہے کہ جس کی اینٹیں کبھی کم نہیں ہو سکتیں۔ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے مابین اختلافات کے حوالے سے بھی ناول ابن الوقت میں بیان ملتا ہے۔
” انگریز الا ماشاءاللہ اس ملک میں ایسا روکھا مزاج بنائے رکھتے ہیں اور ہندوستانیوں کو ایسی نفرت اور حقارت سے دیکھتٰےٰ ہیں کہ کوئی ان کے پاس نہیں پھٹکتا۔”10
ابن الوقت میں دنیا اور انسان کا تعلق بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ دنیا عارضی ہے اور انسان عارضی خواہشات کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ ناول میں اس فانی تعلق کے بارے میں بھی بیان کیا گیا ہےـ
” انسان ساری عمر بہ کمال اطمینان دنیا کی دنیا کی درستی میں لگا رہتا ہےاور اس کو اس دنیا کے ساتھ دلی وابستگی ہو جاتی ہے کہ اس کو دنیا چھوڑنی پڑتی ہے اور چونکہ وہ دنیا سے مانوس تھا تو اس دنیا کی ادبی مفارقت کا بہت صدمہ ہوتا ہے ۔ وہ دنیا سے سازو سامان کی کوئی چیز ساتھ نہیں لے جا سکتا”ـ11
ناول ابن الوقت میں یورپ کی عظمت، سلامتی اور ترقی کا راز بھی بیان کیا گیا ہےـ
” اہل یورپ کی عظمت سلطنت نہیں ہے بلکہ ان کی تمام عظمت ان علوم میں ہے جو جدید ایجاد ہوئے ہیں اور ہوتے جارہے ہیں اوران علوم کے ذریعے سے انھوں نے ریل اور تار برقی اور سٹیمر اور ہزار ہا قسم کی بکار آمد کلیں بنا ڈالی ہیں۔” 12
تحریر لکھنے کے ڈھنگ انداز یا طریقے کو اسلوب کہا جاتا ہے ۔نذیر احمد نے ابن الوقت میں تشبیہات ،عربی اور فارسی زبان کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ وہ اپنی باتیں دلیل کے ساتھ کرتے ہیں اور کہیں کہیں شوخی اور ظرافت کا احساس بھی اپنے عروج پر نظر اتا ہے۔ نذیر احمد نے جا بجا محاورات کا استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی تحریر نثر کی خشکی سے پاک ہے اور قاری آنے والے واقعات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس ناول میں استعمال ہونے والے محاورات درج ذیل ہیں:
” طوطی کی آواز سننا ،جان جوکھم پر نظر کرنا ،آدھا تیتر آدھا بٹیر ،چھوٹا منہ بڑی بات، خدا واسطے کا حسد ،قہر درویش بر جان درویش ،دم نہ مارنا ،کان بھرنا ،چور کی داڑھی میں تنکا ،جتنے منہ اتنی باتیں، آنکھیں چار ہونا”ـ
کسی ایک چیز کو مشترک خوبی کی بنا پر کسی دوسری چیز جیسا قرار دینا تشبیہ ہے ڈپٹی نذیر احمد نے ابن الوقت میں تشبیہات کا استعمال بھی کیا جیسا کہ” بھاڑ میں گویا جنوں کے دھان بننا "، "اولوں کی طرح گولوں کی بارش ہونا "ـ
ناول میں تکرار لفظی کا استعمال بھی ملتا ہےـ تکرار لفظی سے مراد ایک جیسے الفاظ کا تحریر میں دہرانا ہے جیسا کہ "صاف صاف "، "خوب خوب”، ” بڑی بڑی”ـ
: ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناول کو منفرد بنانے کے لیے متضاد الفاظ کا استعمال بھی کیا۔ جیسا کہ:
"مترود و متردد، پیادہ پا اور سوار؟ اونچ نیچ، خوشی رنج، ابتدا انتہا، موافق و ناموافق، حاکم و محکوم”
ناول میں عربی الفاظ کا استعمال اور قران کریم سے حوالے بھی لیے گئے جیسا کہ فصل نمبر نو میں سورہ مائدہ کی آیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ۔
"وطعام والذین اوتوالکتاب حل لکم وطعامکم جل لھم ”
ناول میں فارسی جملوں اور اشعار کا استعمال بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
مرد باید کہ ہراساں نشود
مشکلے نیست کہ آساں نشود
ناول ابن الوقت میں انگریزی الفاظ کا استعمال بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ناول میں جن انگریزی الفاظ کا استعمال ہوا وہ مندرجہ ذیل ہیں:
"ماڈرن ڈسکوریز، نو، یورز سینسیئرلی، سپیچ، فرینڈز”
:ڈپٹی نذیر احمد نے ناول میں مقولے بھی استعمال کیا۔ جب ابن الوقت اپنا عکس دیکھتا ہے تواسے انشاءاللہ خان کا یہ مقولہ یاد آتا ہے:
"داڑھی کو لگا شیخ کی اب بزر قطونا اور بجنے لگی گت”
مختصر طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد کا ناول”ابن الوقت "اپنے موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے کامیاب ناول ہے۔ بہت خوب انداز میں انگریزی نظام اور مسلمانوں کے عقائد کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے قاری بہت سے حقائق سے آشنا ہوتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کا اسلوب بھی ان کی شخصیت کی طرح منفرد ہے ـ
حوالہ جات:
1.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ١۸
2.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۹٣
3.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۸٦
4.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۲٥
5.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ٥۹
6.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۷۲
7.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۷۲
8.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ١۸
9.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۹٦
10.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ١١٣
11.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۰٥
آپ کی راۓ