ناول: امراؤ جان ادا، ( مرزا ہادی رسوا) فنی فکری جائزہ

مقالہ نگار: محمد ناصر باجوہ/بی ایس اردو یونی ورسٹی آف اوکاڑا

16 اپریل, 2024

مرزا ہادی رسوا_تعارف
                                  مرزا ہادی رسوا 1857ء میں پیدا ہوئے اصل نام مرزا محمد ہادی تھا مرزا تخلص تھا امراؤ جان ادا تصنیف کی تو فرضی نام رسوا رکھ لیا بعد میں اسی نام سے جانے گے ابھی کم سن ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا پھر چچا چچی کی شفقت میسر آئی جب یہ ہستیاں بھی دنیا میں نہ رہیں تو مرزا اکیلے رہ گئے مرزا بہت محنتی طالب علم تھا فلسفہ، ریاضی طبیعات، کیمیا، طب، اور منطق، پر دسترس حاصل کی علمی موسیقی سے بھی لگاؤ تھا 21 اکتوبر 1931ء کو دنیا سے رخصت ہو گئے اور مرلی دھر کے باغ کے پاس حیدراباد دکن میں دفن کیے گئے یوں مرزا نے افشائے راز، اختری بیگم، زات شریف، اور شریف زادہ جیسے ناول لکھے مگر ان کے ناولوں میں جو  جو شہرت امراؤ جان ادا کے حصے میں آئی وہ کسی اور کو نہ مل سکی
فکرئی جائزہ
                           یہ ناول اپنے عہد کے لکھنو معاشرے کی تہذیب و معاشرت  کی تاریخ ہے یعنی کہ مرزا ہادی رسوا نے اس ناول میں لکھنؤ کی تہذیب کو ایک طوائف کی آنکھ سے دیکھا ہے شعر و شاعری اس معاشرے کا اہم جز ہوتا ہے لوگ اپنی تہذیب کی تکمیل کے لیے توائفوں کے کوٹھوں کا رخ کرتے تھے کیونکہ توائفوں کے کوٹھوں کے علاوہ کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا  جہاں پر عوام اپنے ذوق کی تسکین کر سکے اس لیے وہ ان طوائفوں کے کوٹھوں کا رخ کرتے تھے جو سرمایہ دار تھے ڈیرے دار امیر لوگ تھے انہوں نے طوائفیں اپنے گھروں میں رکھی ہوئی تھی  توائفیں اعلی تعلیم یافتہ فنون لطیفہ کی ماہر تھی  ان کی میٹھی زبان ان کا رکھ رکھاؤ  برتاؤ جاہل کو عالم بنا دیتا تھا
                          ڈیرہ دار طوائفوں کے علاوہ پتریا بھی ہوا کرتیں۔ یہ سال میں ایک مرتبہ گاؤں پھرا کرتیں اور امیر و رئیس کے مکانوں پر کہیں مجرا ہوتا کہیں نہیں ہوتا۔ شادی بیاہ کے موقع پر بارات کے ساتھ کوسوں ناچتی گاتی چلی جاتیں۔ طوائفیں اپنی تمام تر صفات کے باوجود معاشرے میں محترم نہ تھی منشی احمد حسین کے یہاں منعقد مشاعرہ میں جب مرزا ہادی رسوا امراؤ جان کو شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں تو وہ برجستہ کہتی ہے کہ ”مجھے چلنے میں کوئی عذر نہیں لیکن صاحب خانہ کو میرا جانا ناگوار نہ ہو“
                             اس ناول میں سنسنی خیز حالات کا بھی خاصا عمل دخل نظر آتا ہے جیسے شروع ہی میں امراؤ جان کا دلاور خاں کے ہاتھوں اغوا کیا جانا، سلطان صاحب کا خانم کے بالا خانے پر ایک خاں کو طمانچہ مار کر گھائل کرنا، پرانے دشمنوں کا بات بات پر جنگ و جدل پر آمادہ ہو جانا، تلواروں کا طیش میں آ کر میانوں سے باہر نکالنا، زنان بازاری میں کسی کا میلے ٹھیلے میں سے اٹھوا لینا وغیرہ وغیرہ، یہ سب ایک طرح سے ان پڑھ عمل کی مثالیں ہیں

                               فنی جائزہ
پلاٹ
     کرادر
    مکالمہ
  منظر نگاری
    اسلوب
                                      پلاٹ
اس ناول میں تمام واقعات زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں پیوست ہیں کہانی میں تسلسل  برقرار رہتا ہے اس ناول کو پڑھتے ہوئے کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ داستان کا انداز پیدا ہو گیا ہے ناول میں تجسس کا عنصر بھی پایا جاتا ہے
                                                                ڈاکٹر میمونہ انصاری امراؤ جان ادا کے پلاٹ کے بارے میں لکھتی ہے,,امراؤ جان ادا کے پورے پلاٹ میں قواعد کی پابندی ملحوظ رکھی گئی ہے اسی طرف سے بھی بھول نہیں اس کا ہر کردار اور کرداروں کی گفتگوں اور تسلسل قائم رکھنے میں مددگار ہے امراؤ جان ادا اور رسوا کے درمیان مکالمہ ہے جو قصے کو کامیاب طریقے سے اگے بڑھاتا ہے  اور فطری بنانے میں مددگار ہوتا ہے،،
                             ,,رام بابو سکسینہ اپنی کتاب تاریخ ادب اردو میں امراؤ جان ادا کے پلاٹ کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں سب سے بڑی صفت اس میں یہ ہے جو اردو کے بہت کم ناولوں میں پائی جاتی ہے کہ اس کا پلاٹ یعنی ترتیب قصہ نہایت باقاعدہ منظم اور اس کے کریکٹر صاف واضح طور پر نظر آتے ہیں ہم نے کسی ناول میں اتنی دلچسپی اتنی کثرت واقعات اور فطرت انسانی کی اتنی تصویر نہیں دیکھی اس میں زمانے کی طرز معاشرت اور سوسائٹی کے ہو بہو نقشے کھینچے گئے ہیں جن میں کسی قسم کا مبالغہ یا آورد نہیں،،

کردار

اس ناول میں دو قسم کے کردار ہیں مرکزی اور ضمنی
صمنی کردار
امراؤ جان ادا کا والد، والدہ  دلاور خان، پیر بخش، خانم ،بوا حسینی، اور خورشید امیر جان، نواب محمود علی خاں،

                       مرکزی کرداد
امراٶ
          یہ ناول کا سب سے اہم کردار ہے یعنی یہ ہیروائن ہے
امراؤ کے بغیر ناول کا حصہ مکمل نہیں ہوتا ناول کا کوئی نہ کوئی حصہ امراؤ کے ساتھ تعلق ضرور رکھتا ہے اس کا نام امیر ہوتا ہے  فیض آباد کے رہنے والی ہوتی ہے اس کے محلے میں ایک بدمعاش رہتا ہے جس کا نام دلاور خان ہوتا ہے ایک مرتبہ وہ بدمعاش  قانون کے شکنجے میں آ گیا تو  امیرن کے والد نے اس کے خلاف  گواہی دی پھر اس کو سزا ہوئی اور جب پھر وہ سزا کاٹ کر واپس آیا تو اس نے ان سے انتقام لینا چاہا تو اس نے امیرن کو اغوا کر لیا اور لکھنو میں خانم کے کوٹھے پر اسے فروخت کر دیا پھر یہ امیرن سے امراؤ اس کا نام پڑ گیا وہاں پر ناچ گانا مجرہ وغیرہ ہوتا تھا آہستہ آہستہ  شرم و حیاء کے سارے پردے اتر گئے ازادی کا خیال پھر دل میں پیدا ہوا تو ایک فیضو نامی تھا  اس کے ساتھ دوستی کر لی گھر سے نکل کر امراؤ نے کانپور جا کر اپنے پیشے سے نام پیدا کر لیا خانم کے آدمی آخر تلاش کرتے کرتے ان تک پہنچ کر گئے واپس لکھنو لے گئے تو ایک دن پھر یہ مجرہ کرنے اسی  فیض آباد آئی جہاں اس کا گھر تھا جس گھر میں پیدا ہوئی تھی تو اس کی والدہ نے اسے پہچان لیا اس کا بھائی اس کو قتل کرنے سے ارادے سے آیا جب انہیں ساری بات امیرن نے سنائی تو اس نے انہیں معاف کر دیا ایک روز امراؤ دوسری رنڈیوں کے ساتھ سیر کو نکلی تو اس نے ایک الگ راستہ اختیار کیا دوسروں سے تو اس نے دلاور کو دیکھ لیا تو اس نے پولیس کو اطلاع کی دلاور گرفتار ہو گیا بالاآخر اسے پھانسی ہو گئی اب امراؤ کی جو عمر تھی زیادہ ہوگی پھر اس نے کتب کا مطالعہ کیا نیک زندگی اختیار کی اور واپس اپنی وہی زندگی میں آگئی

خانم کا کردار
خانم کا کردار ناول کی دیگر اہم کرداروں میں سے ایک ہے خانم اس کوٹھے کی مالکن ہے جس پر امیرن بکی
وہ کو ٹھے کے ادب آداب سے بخوبی واقف ہے کوٹھے پر رہنے والی لڑکیوں کے ناز نخرے برداشت کرتی ہے
دلاور خان
دلاور خان کا اگر کردار دیکھے تو وہ برے ماحول کا پاوردہ ہوتا ہے اس کا مزاج ایسا بن جاتا ہے کہ وہ انتقام لینا چاہتا ہے آخر وہ امیرن کو اغوا کر لیتا ہے اور خانم کے کوٹھے پر فروخت کر دیتا ہے اور  امیرن کے والد وہ اس کے خلاف اس نے گواہی دی ہوتی ہے جس کی وجہ سے پھر  امیرن کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے آخر میں دلاور خان گرفتار ہو جاتا ہے اور  پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے

بوآ حسینی
                    بوا حسینی یہ امیرن کی سرپرستی کرتی ہے یعنی کہ دلاور خان اس کو خانم کے کوٹھے پر فروخت کر جاتا ہے تو اس اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتی ہے اس کے ساتھ پیار اور محبت کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

مولوئی صاحب
                      مولوی صاحب امراؤ جان ادا میں شعر و ادب کا ذوق شوق پیدا کیا

بسم اللہ
             بسم اللہ خانم کی بیٹی ہوتی ہے بڑے نخرے والی ہوتی ہے نواب جھبن سے جب مال و دولت چھن جاتی ہے تو یہ ماتھے پر آنکھیں رکھ لیتی ہے بہت بد لحاظ ہوتی ہے

خورشید جان
                  یہ بھی بیچاری کسی زمیندار کی بیٹی تھی بدقسمتی سے یہ کوٹھے پر چلے آئی اس میں کسی قسم کی کوئی بری عادت نہیں تھی یا ایک آدمی کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی

فیضو
                فیضو بھی بڑا جاندار کردار ہے یہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتاہے ہے اس سے اخلاص کی خوشبو آتی ہے یہی وجہ ہے کہ امراؤ جیسی شائستہ و شستہ مزاج کے مالک طواف اس سے متاثر ہو جاتی ہے فیضو امیر اور رائیس نہیں ہوتا  وہ مفلص ہے روپے پیسے کے حصول کے لیے جان جیسی قیمتی چیز کی پرواہ نہیں کرتا اور امیروں اور نوابوں کی طرح خرچ کرتا ہے

گوہر مرزا
           بنو ڈومنی کا بیٹا ہے ہے لوگ اس کی شرارتوں سے تنگ تھے ۔ مان نے اس کی شرارتوں سے تنگ آکر اسے مولوی صاحب کے پاس بھیج دیا مگر مدرسہ کے لڑکے بھی اس کی شرارتوں کی تاب نہ لا سکے۔ ایک دفعہ مولوی صاحب کا نیا جو تا حوض میں تیرا دیا جس پر مولوی صاحب نے اسے پڑھانے سے انکار کر دیا اس کے بعد گوہر مرزا کو بوا حسینی نے اپنے مولوی صاحب کے پاس بٹھا دیا ۔ اس وقت مکتب میں گوہر مرزا کے علاوہ تین اور لڑکیاں بھی تھیں جن میں ایک امراؤ جان تھی۔ اس مکتب میں بھی گوہر مرزا کی شرارتیں ویسی ہی رہی۔ لڑکیوں کو ستاتا مارتا, غرض تمام لڑکیاں اس کی شرارتوں سے بہت پریشان تھی۔

نواب سلطان
نواب سلطان ناول کا ایک اہم کردار ہےایک شریف النفس  انسان تھے امراؤ سے دلی محبت کرتے تھے اور اس کی ادا پر جان وار دیتے  مگر عزت نفس کا اتنا پاس تھا کہ کو ٹھے پر ایک شخص کی بد تمیزی کی وجہ سے یہاں آنا جانا چھوڑ دی

مکالمہ
           امراؤ جان ادا میں مکالمات کے سہارے کہانی فطری انداز میں اگے بڑھتی ہے بات سے بات نکلتی ہے ہر کردار اپنے مقاموں اور مرتبے کے مطابق گفتگوں کرتا ہے نوابوں کی گفتگو میں تکلف اور رعب ہے ڈاکٹر میمونہ انصاری رسوا کے مکالمہ نگاری کے بارے میں لکھتی ہے ,,امراؤ جان ادا کے کرداروں کو اس کے نادر مکالموں نے اور بھی کامیاب بنا دیا ہے سرشار مکالموں کےذریعے اپنے کرداروں کے اندر زندگی پیدا کرتے ہیں ان کے یہاں بیانیہ قوت نہیں ہے رسوا کے ہاں بیان کی قوت کے ساتھ ساتھ مکالمہ نگاری کی بھی صلاحیت ہے ان دونوں خوبیوں نے ان کے کرداروں کو اردو ناول نگاری کی تاریخ میں نایاب بنا دیا ہے،،

منظر نگاری
              ناول میں جن بھی مقامات کا ذکر آیا ان کی منظر کشی نہایت خوبصورت آنداز سے کی گئی ہے ناول کے آغاز میں ہی معاشرے کی منظر کشی کی گئی ہے لکھنؤ کے لوگ کس مزاج کے لوگ تھے ان کا رکھ رکھاؤ برتاؤ ان کی گفتگوں مزاج کیسا تھا یہ سب چیزوں کی جو منظر کشی بہت احسن طریقے سے کی گئی ہے

اسلوب
          بالکل سادہ سلیس عبارت سے کام لیا ہے کاری کو پڑھتے وقت کسی قسم کی بھی اکتاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا سادہ اور سلیس عبارت نے ناول کو اور خوبصورت بنا دیا

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter