انتری بازار/ كيئر خبر
عیدالفطر خوشی اور مسرت کا دن ہے۔ عیدالفطر سے ہمیں اجتماعیت، اخوت، اتحاد و اتفاق کا درس ملتا ہے، عید کے دن اللہ سے اس کے بندے اجرت کے طلب گار ہوتے ہیں جو کہ انھوں نے ماہ رمضان المبارک میں اس کی رضا اور خوشنودی کی خاطر بھوک پیاس کی شدت کو برداشت کیا ہوتا ہے، تراویح اور قیام اللیل صدقات و خیرات ذکر و اذکار کرکے اپنے رب کو منانے کی کوشش کی ہے، اسی لیے حقیقت میں عیدالفطر انہیں لوگوں کے لیے خوشی اور مسرت کا دن ہے جنہوں نے ماہ رمضان المبارک میں بہت ساری نیکیاں انجام دیں برائیوں سے دور رہے یہ باتیں معروف عالم دین اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کے موقر استاد اور ماہ نامہ السراج جھنڈا نگر نیپال کے معاون مدیر اور ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے نائب ناظم مولانا سعود اختر عبدالمنان سلفی نے اپنے آبائی وطن انتری بازار کے خطبۂ عید میں کہیں، جہاں ہزاروں فرزندان توحید مرد و خواتین نے ان کی اقتداء میں نماز دوگانہ ادا کی۔
مولانا نے مزید کہا کہ ماہ رمضان المبارک ایک حسین ہوا کے جھونکے کی طرح آیا اور بڑی تیزی کے ساتھ رخصت ہوگیا، ماہ رمضان المبارک کے کتاب و سنت میں بڑے فضائل ہیں، حدیث میں ہے کہ جس نے ایمان اور اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اسی طرح جس نے راتوں کو ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ تراویح اور قیام اللیل کا اہتمام کیا تو حدیث کے مطابق اس کے بھی پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں بالخصوص جنہوں نے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا، شب قدر کا اہتمام کیا اور اپنے نامہ اعمال میں بہت ساری نیکیاں جمع کرنے کی کوشش کی ان کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے انعام و اکرام رکھا ہوا ہے۔
مولانا سعود اختر سلفی نے مزید کہا کہ یہ عید ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جنہوں نے نئے کپڑے پہن لیے اور اچھے پکوان کھائے بلکہ یہ عید ان کے لیے ہے جو اس ماہ مبارک میں بخش دیے گئے، جن کی نمازیں قبول ہوگئیں، جن کی قیام اللیل قبول ہوگئیں جن کے صدقہ و خیرات کو شرف قبولیت سے نواز دیا گیا، حقیقت میں انہیں لوگوں کے لیے آج خوشی کا دن ہے اور انہیں لوگوں کے لیے آج عید کا بھی دن ہے اس تعلق سے آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک واقعہ بھی بتایا۔
مولانا سعود اختر سلفی نے مزید بیان فرمایا کہ یہ عید ہمیں اجتماعیت، اتحاد و اتفاق، اور رواداری کا درس دیتی ہے اس لیے ہمیں آپسی انتشار سے بچنا چاہیے اور متحد ہوکر زندگی گزارنی چاہیے۔
مولانا نے نوجوانوں کی تربیت کے حوالے سے سامعین کو ابھارا اسی طرح عورتوں سے مخاطب ہو کر عصمت و عفت کی حفاظت کی تاکید کی۔
آخر میں مولانا سلفی نے دیر تک عالم اسلام خصوصاً حرمین شریفین، مظلوم و مقہور مسلمانوں اور وطن عزیز ہندوستان کی سالمیت کے لیے دعا فرمائی جس سے لوگ آبدیدہ ہوگئے۔
آپ کی راۓ