مولانا فضل حق مبارکپوری رحمہ اللہ کے انتقال پر ملال پر علماء کرام کے تاثرات و احساسات

14 فروری, 2025

مبارکپور / کیر خبر

نيپال کی قدیم دینی دانشگاہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کے سابق موقر أستاذ اور بزرگ عالم دین مولانا فضل حق مدنی مبارک پوری کا دہلی میں طویل علالت کے بعد مورخہ ١١ فروری کو انتقال ہوگیا إنا للہ و إنا الیہ راجعون

دہلی سے بذریعہ ایمبولینس نعش مبارکپور لائی گئی اور مورخ ١٢ فروری کو بوقت نو/بجے شب آبائی وطن مبارک پور کے قبرستان شاہ پنجے میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی – نماز جنازہ ان کے فرزند ارجمند مولانا راشد حسن سلفی پڑھائی- جنازہ میں ہند و نیپال کے دینی و تعلیمی اداروں سے وابستہ سیکڑوں علماء و سماجی شخصیات نے شرکت کی –

دوسری جانب شیخ فضل حق مدنی مبارکپوری کی نمازِ جنازہ غائبانہ بروز جمعہ، بعد نمازِ مغرب، مسجد نبوی، مدینہ منورہ (باب الرحمة، باب نمبر ٤) کے قریب ادا کی گئی- جس میں جامعہ اسلامیہ کے طلبہ و عقیدتمندوں کی قابل ذکر تعداد شریک تھی –

ذیل میں شیخ رحمہ اللہ کے تعلق سے بعض اصحاب علم و فضل کے تاثرات و احساسات نقل کئے جارہے ہیں:

———————————————————————–

نہایت ہی رنج و افسوس کے ساتھ یہ خبر سنی گئی کہ نیپال کی قدیم دینی دانشگاہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کے سابق موقر أستاذ اور بزرگ عالم دین مولانا فضل حق مدنی مبارک پوری صاحب کا بتاریخ 11/فروری 2025ء بوقت تقریبا ساڑھے گیارہ بجے شب طویل علالت کے بعد بعمر تقریبا 70 / سال دہلی میں انتقال ہوگیا ۔اناللہ وانااليه راجعون.اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه واكرم نزله ووسع مدخله ونقه من الذنوب كمانقيت الثوب الابيض من الدنس وادخله الفردوس الاعلى من الجنة والهم اهله وذويه الصبر والسلوان.ان العين تدمع والقلب يحزن ولانقول الابما يرضى ربناسبحانه وتعالى . ان لله مااعطى وله مااخذ وكل شئى عنده باجل مسمى.

مولانا فضل حق مدنی صاحب کو اللہ تعالی نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا ۔آپ نیک طبع ، خلیق و ملنسار ،علم دوست ،طلبہ نواز اور علماء کے قدر داں تھے۔ جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغ التحصیل تھے ۔فراغت کے بعد آپ نے پوری زندگی درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کردی ۔بیالیس سال تک جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر میں تدریسی خدمات انجام دیں۔دعوت وتبلیغ کے کاز سے کافی شغف تھا۔دیگر علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ علم فرائض اور عروض میں بھی ملکہ حاصل تھا۔کبھی کبھی شاعری بھی کرتے تھے۔آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد ہے جو آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔مجھ ناچیز سے بڑی محبت فرماتے تھے اور ملاقاتوں میں بڑی دعائیں دیتے تھے ۔
آپ کے پسماندگان میں بیوہ ،چھ حفاظ وعالم فاضل صاحب زادگان مولانا صھیب حسن مدنی ،مولانا حامد حسن فلاحی ،مولانا راشد حسن سلفی ،مولانا حمید حسن سلفی ،مولانا خبیب حسن سلفی ،مولانا حمود حسن سلفی اور دو صاحبزادیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، لغزشوں سے درگذر کرے، خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ،ان کو جنت الفردوس کا مکین بنائے اور جملہ پسماندگان ومتعلقین کوصبرو سلوان عطا فرمائے ۔ آمین۔
دعا گو :
اصغر علی امام مہدی سلفی
امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند
———————————————————————————

جب آنکھ کھلی تو حضرت مولانا فضل حق مدنی کو دیکھا ان کی محبت شفقت ہمیشہ اپنے ارد گرد پائی؛ ان کے فرزندان برادر گرامی مولانا صہیب حسن و برادران حامد حسن و راشد حسن کے ساتھ بچپن گزرا ہے ایک گھریلو اور خاندانی تعلق کی بنا پر کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ شیخ محترم اور ان کی فیملی کا گھر جھنڈا نگر سے باہر ہے؛ انہوں نے پوری زندگی تعلیم و تعلم میں لگادی اور جھنڈا نگر کے ہو کر رہ گئے- شیخ محترم ہم سب کے مربی تھے بڑی ہی نرمی کے ساتھ غلطیوں پر نوٹس لیتے تھے – انتہائی سادہ زندگی گزاری کو ئی تڑک بھڑک نہیں’ کوئی ریا و نمود نہیں؛ اخلاق کریمانہ اور تقویٰ و طہارت سے عبارت انکی حیات مبارکہ تھی-  ایسی بے لوث شخصیت کے سانحہ ارتحال پر دل ملول ہے : ایسا کہاں سے لائیں تجھ سا جسے کہیں

رب کریم ہمارے مربی محترم کی مغفرت فرماے انکی خدمات جلیلہ کو قبول فرماے؛ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے: آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے-

غمزدہ: عبد الصبور ندوی- کٹھمنڈو

——————————————————————————

شیخ فضل حق مبارکپوری رحمہ اللہ کے انتقال کی خبر سن کر دل انتہائی رنجیدہ اور غمگین ہے۔ وہ ایک عظیم علمی ورثے کے امین، دین کی اشاعت و تبلیغ کے سچے داعی، تقویٰ و طہارت کے پیکر، اور خلوص و للہیت سے مزین شخصیت تھے۔ ان کی وفات صرف خانوادۂ مبارکپور کے لیے ہی نہیں بلکہ علمی، تدریسی اور دعوتی دنیا کے لیے بھی ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
شیخ فضل حق مبارکپوری رحمہ اللہ کا شمار جامعہ سراج العلوم السلفیہ، جھنڈا نگر نیپال کے ان محسن اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علم و تعلیم، دعوت و اصلاح اور طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت میں گزار دی۔ آپ نے جامعہ سراج العلوم السلفیہ اور اس کی شاخ کلیہ عائشہ صدیقہ میں ایک طویل مدت تک تدریسی خدمات انجام دیں، اور ہزاروں طلبہ آپ کے علمی چشمہ فیض سے سیراب ہوئے۔ آج آپ کے شاگرد دین کے مختلف محاذوں پر دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، جو یقیناً آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
آپ کی ذات سادگی، تقویٰ، زہد، حلم اور علم کا ایک حسین امتزاج تھی۔ دنیا سے بے رغبتی، اخلاص، تواضع اور عبادت گزاری آپ کی زندگی کے نمایاں اوصاف تھے۔ آپ ہمیشہ کتاب و سنت کے علوم کو عام کرنے، طلبہ کی صحیح رہنمائی کرنے، اور دینی بیداری پیدا کرنے میں مصروف رہے۔ ان کا طرز تدریس، انداز نصیحت، اور طلبہ سے شفقت بھرا رویہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آپ کے انتقال سے خانوادۂ مبارکپور کی ایک مضبوط علمی بنیاد ختم ہو گئی، وہ خانوادہ جو علم و فضل کا استعارہ رہا ہے اور جس کے علم و تحقیق کی خوشبو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ آپ کے نہ ہونے کا خلا کبھی پر نہیں کیا جا سکتا، لیکن اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، خصوصاً آپ کے اہل خانہ، عزیزان گرامی صہیب حسن، حامدحسن راشد حسن، حمید حسن، خبیب حسن اور حمود حسن اور بہنوں سہیمہ، شمیسہ اور نواسہ عامر سہیل (سول سروس) اور دیگر لواحقین کو اس صدمے کو برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور ہم سبھی کو صبر کی توفیق عطا کرے۔
اس دکھ کی گھڑی میں ہم تمام اساتذۂ جامعہ، منتظمین جامعہ خصوصا مولانا شمیم احمد ندوی اور ڈاکٹر منظور احمد ندوی علیگ اور منتسبین جامعہ کے ساتھ کلیہ عائشہ (جس کے وہ اولین دن سے تادم واپسیں مدرس و مربی رہے) کا جملہ اسٹاف شیخ محترم کے تمام پس ماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
عبدالغنی القوفی
استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال
————————–
خانوادۂ مولانا عبد السلام مبارکپوری و صاحب مرعاۃ شیخ الحدیث مبارکپوری کا روشن چراغ گل ہوگیا یعنی شیخ فضل حق مدنی مبارکپوری اب رحمہ اللہ ہوگئے،
انا للہ وانا الیہ راجعون،
مرحوم موصوف فاضلان گرامی شیخ صہیب حسن مبارکپوری ، شیخ راشد حسن مبارکپوری، شیخ حمید حسن، شیخ خبیب حسن صاحبان کے والد گرامی تھے،
اللہ اعلی علین میں جگہ دے اور بال بال مغفرت فرمائے،
شریک غم
ابو اشعر فہیم
————————————-
ابھی انٹرنیٹ آن کیا تو سوشل میڈیا کے ذریعے برادر مکرم شیخ راشد حسن مبارکپوری کے والد محترم شیخ فضل حق مبارکپوری صاحب کے انتقال کی خبر ملی . إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله
شیخ فضل حق مبارکپوری رحمہ اللہ کی ساری زندگی گیسوئے علم و فن سنوارنے اور تشنگان علم دین کی پیاس بجھانے میں گزری ہے. ایک زمانے سے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے.. آپ کی تمام اولاد علم و عمل کے معاملے میں صحیح معنوں میں آپ کی وارث ہے. آپ کے تمام صاحبزدگان علم و عمل اور اخلاق حسنہ کے پیکر ہیں. بالخصوص شیخ راشد حسن مبارکپوری آپ کے انتہائی با سعادت، علم وعمل، صلاحیت و صالحیت سے مزین بیٹے ہیں. ان شاء اللہ یہ تمام بھائی لوگ اپنے والد رحمہ اللہ کے حق میں صدقہ جاریہ بنیں گے.
اللہ تعالیٰ شیخ فضل حق صاحب کی مغفرت فرمائے، اپ کے تمام اہل خانہ اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.
یکے از غمزدگان: عبدالغفار سلفی، بنارس
————————————————–
خراج عقیدت استاذ گرامی فضیلت مآب جناب مولانا فضل حق مدنی ،مبارکپوری رحمہ اللہ استاذ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر نیپال، اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
نگاہیں آبدیدہ ہیں یہ ہم نے آج پھر جانا
"مبارک پور”سے لے کر ہوا "نیپال "ویرانہ
کسی کی موت پر آنسو بہانا دل کی فطرت ہے
مگر اے "فضل حق مدنی ” ترا غم ہے جدا گانہ
تو فضل حق تھا تیری افضلیت حق کی خاطر تھی
تو جھوٹی شان وشوکت سے رہا کرتا تھا بیگانہ
تری شفقت ،محبت آئے دن مجھ کو ستائے گی
تری تعلیم تھی "جھنڈا نگر” میں مثل پدرانہ
تیرے چہرے کی سادہ مسکراہٹ ہم نہ بھولیں گے
تری پاکیزہ سیرت نے کیا ہے مجھ کو فرزانہ
پڑھانے کا ہنر اللہ نے کیا خوب بخشا تھا
بنایا تو نے مجھ کو علم کی شمع کا پروانہ
ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے کوئی بھی ہو
تری سادہ طبیعت میں عیاں تھی خوئے شاہانہ
تری سنجیدہ گفتاری مثالی تھی زمانے میں
کہاں سے لاؤں تجھ جیسا نہ کوئی دانا وبینا
پڑھایا اپنے بچوں عزیمت کا سبق رو کر
خوشی ہو یا غمی ہو کرتے رہنا رب کا شکرانہ
بڑے ہی نیک و صالح تھے صف اول کے عابد تھے
الہی ! تو عطا کردے انہیں رحمت کا نذرانہ
دعائیں روز وشب انصر کرے ہے مدنی کے حق میں
الہی ! جنت الفردوس میں ہو ان کا کاشانہ
غمزدہ: انصر نیپالی
———————————————-
مولانا محترم ضلع اعظم گڑھ یوپی کے مشہور ومعروف قصبہ مبارک پور کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بارے میں مجھے نہیں معلوم ہے البتہ جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد اعلی تعلیم کے لئے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ جامعہ اسلامیہ کے اساتذہ سے کسب فیض کے بعد علم وعمل کی دولت لے کر وطن مالوف لوٹے۔ مبارکپور آمد کے بعد غالبا مشكاة المصابيح کے شارح حضرت مولانا عبید اللہ الرحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کہا کہ جہاں علم دین کی زیادہ ضرورت ہو آپ رہنمائی کریں، چنانچہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کے مشورہ پر جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر تشریف لائے اور آخر عمر تک یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر ملک نیپال کا سب سے پرانا تعلیمی ادارہ ہے جس کو ہند نیپال سرحد پر آج سے ایک صدی قبل الحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ نے 1914 عیسوی میں ایک مدرسہ کی شکل میں قائم کیا تھا۔ خطیب الاسلام مولانا عبد الروف رحمانی جھنڈا نگری رحمہ اللہ نے مدرسہ سے ترقی دے کر جامعہ بنایا اور صحیحین تک کی تعلیم ہونے لگی۔ آج بھی یہ تعلیمی ادارہ حضرت مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ کی نظامت میں ترقی کے منازل طے کر رہا ہے۔
استاذ محترم حد درجہ نفاست پسند اور نیک سیرت کے حامل تھے، مزاج میں نرمی تھی لیکن دوران کلاس کچھ سخت رہتے تھے ۔ مولانا محترم بہت ہی ملنسار اور طبیعت میں سادگی تھی، چکا چوند کی زندگی سے دور رہتے تھے اور یہی سب الحمد للہ ان کے اولاد میں بھی پائی جاتی ہے۔
مولانا رحمہ اللہ کوئی زور آور خطیب نہ تھے لیکن تعلیم کے علاوہ دعوت وتبلیغ کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور اسی کے پیش نظر خطبہ جمعہ کے لئے ہر جمعہ کے دن جھنڈا نگر کے اطراف کے گاؤں میں بکثرت جاتے رہتے تھے۔
مولانا رحمہ اللہ جامعہ سراج العلوم کے فیملی کوارٹر میں رہتے تھے اور اسی وجہ سے مولانا رحمہ اللہ کے فرزند عزیز دوست حامد حسن جو کہ جامعہ کے مکتب میں کلاس فیلو تھے ان کے ساتھ ٹھنڈا پانی پینے کے بہانے موقع ملتے ہی پہنچ جاتا تھا۔
مولانا رحمہ اللہ کے گھر بکثرت آنا جانا رہتا تھا مگر کبھی برا نہیں مانتے تھے بلکہ حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے کہ ارشاد عصر بعد حامد کے ساتھ کھیلنے کے لئے آجایا کرو۔ مولانا رحمہ اللہ کی اہلیہ بچوں کی طرح مانتی تھیں اور ہم بھی انہیں خالہ کہہ کر پکارتے تھے۔
مبارکپوری لوگوں کے بولنے کا لہجہ بہت ہی پیارا اور شیریں ہے، سنیں تو سنتے رہ جائیں، چونکہ یہ لہجہ ہم لوگوں کو بہت اچھا لگتا تھا اس لئے تھوڑی بہت نقل کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور جب اپنے گھر جاتے تو اسی طرح بولنے کی کوشش کرتے تھے۔
مولانا رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا تھا، جب تک بچے چھوٹے تھے جامعہ سراج العلوم کے فیملی کوارٹر میں قیام رہا اور جب بچے بڑے ہوگئے تو انہیں مبارکپور بھیج دیا اور اکیلے جامعہ سراج العلوم کے فیملی کوارٹر میں رہنے لگے۔
میں آج تک کسی کے بارے میں نہیں جانتا جن کی ساری اولاد حافظ قرآن اور دینی تعلیم حاصل کی ہو لیکن الحمد للہ مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ کی ساری اولاد حافظ قرآن اور عالم دین ہے۔ مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ کے فرزند عزیزم راشد حسن مبارکپوری علمی دنیا میں برانڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مولانا رحمہ اللہ کے بڑے فرزند برادرم حافظ صہیب حسن مدنی جنوبی ہند کے کسی ادارہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
دوسرے نمبر پر عزیز دوست ہمدم راز داں حامد حسن ہیں۔ جامعہ سراج العلوم میں ایک ساتھ مکتب میں داخل ہوئے اور درجہ پنجم تک ساتھ رہے، درجہ ششم میں حامد حفظ کے لئے شعبہ حفظ میں چلے گئے تو انہیں کی دیکھا دیکھی میں نے اور شفاء الرحمن سلفی بن مولانا مختار احمد مدنی نے حفظ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ مولانا محترم جب بیمار رہنے لگے تو جامعہ سراج العلوم کو خیر باد کہہ کر دلہی حامد بھائی کے یہاں رہنے لگے تھے اور یہیں وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
تیسرے نمبر پر عزیزم حافظ راشد حسن سلمہ ہیں۔ ان کے بارے میں کیا لکھوں بس اتنا سمجھ لیں کہ عزیزم کا نام لے کر اور ان کی تحریریں پڑھ کر ہم جیسے لوگ اپنی علمی اہمیت بڑھا لیتے ہیں۔ اللہ تعالی راشد صاحب کو قلمی نگارشات کی مزید توفیق دے۔ آمین
عزیزم حمید حسن سلمہ جو دلہی میں شاید مدرسہ نذیریہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
عزیزم حافظ خبیب حسن سلمہ اور سب سے چھوٹے عزیزم حافظ حمود حسن سلمہ ہیں۔
تین بچیاں ہیں
1: سہیمہ آپا ، یہ بھائیوں اور بہنوں میں سب سے بڑی ہیں۔
2: ثمامہ آپا، یہ بہت ہی نیک ملنسار اور حد درجہ شریف تھیں۔ یہ مولانا رحمہ اللہ کی زندگی میں ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
3: پیاری چھوٹی بہین شمیسہ سلمہا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ استاذ محترم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین
اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ میرے بھائی دکھ کی اس گھڑی میں میں اور میرا خاندان آپ کے ساتھ ہے۔
ارشاد رشید – مکہ مکرمہ
———————————————————————————————-
شمیم احمد ندوی
مولانا فضل حق مبارکپوری کا سانحہ ارتحال نہ صرف ان کے اہل وعیال اور ان کے ورثاء وپسماندگان کے لیے ایک المناک سانحہ ہے بلکہ جامعہ سراج العلوم کے پورے خانوادہ کے لیے ایک باعث رنج وملال حآدثہ ہے،
وہ طویل عرصہ تک جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ہیں
جب جامعہ سراج العلوم میں عالمیت تک کی تعلیم ہونے لگی اور اس کا معادلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے کئے جانے کی کاروائی شروع کی گئ تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئ کہ کچھ اچھے اور باصلاحیت اساتذہ بالخصوص جامعہ اسلامیہ کے فارغین کی جامعہ میں تدریسی خدمات کے لیے تقرری کی جائے
چنانچہ خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری رح کی دعوت اور ان کے طلب پر ایک ساتھ جن چھ اساتذہ کی تقرری ہوئ تھی اور جن کا ابتعاث رابطہ عالم اسلامی نے منظور کیا تھا ان میں سے مولانا فضل حق رحمہ اللہ ایک تھے،
وہ بہت محنت وجاں فشانی اور پوری ذمہ داری سے اپنی تفویض کردہ کتابوں کا درس دیتے تھے،
اور جامعہ کی تعمیرو ترقی سے ازحد لگاؤ رکھتے تھے
وہ بہت ہی خوش مزاج اور راضی برضائے الہی رہنے والے، بہت صلح جو، محتاط اور قناعت پسند ہونے کے ساتھ بہت تقوی شعار اور نیک ودیانت دار تھے،
وہ جامعہ میں کوئی بھی کمی دیکھتے تھے تو نہ صرف اس کی طرف توجہ دلاتے تھے بلکہ اس کی اصلاح کا حل بھی پیش کرتے تھے
کچھ عرصہ سے بیمار تھے اور جب بیماری شدت اختیار کرگئ تو انھوں نے جامعہ سے مستقل چھٹی لے لی لیکن جامعہ سے تعلق باقی رکھا، اور مجھےوقتا فوقتامفید مشوروں سے نوازتے رہے، ہمارے خاندان کدربٹوا سے بھی ان کے گھریلو اور مضبوط روابط تھے
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات اور انکے حسنات کو شرف قبولیت سے نوازےاور خطاؤں س لغزشوں اور بشری کوتاہیوں سے صرف نظر فرمائے،
پسماندگان کو صبر جمیل جمیل کی توفیق عطا فرمائے،
بالخصوص عزیز گرامی حافظ صہیب حسن فضل حق اور مولانا راشد حسن فضل حق کو اس صدمہ کو برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے آمین
—————————————
شیخ انتہائی خلیق وملنسار اور عمدہ سیرت وکردار کے مالک تھے،صوم وصلاة کے پابند تھے،سادہ لوح اور شریف انسان تھے،
اللہ تعالی ان کی نیکیوں، طاعات وعبادات اور تمام تر خدمات کو شرفِ قبولیتِ سے نوازے اوربشری لغزشوں کو در گذر کرتے ہوئے جنت الفردوس کامکین بنائے اور تمام لواحقین و پسماندگان اور اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی عطا کرے- آمين
قارئین کرام سے پرخلوص دعائے مغفرت کی درخواست ہے-
طالب دعا اور شریکِ غم
سید عزیر احمد قاسمی
ناظم و جملہ اساتذہ و طلبہ الجامعۃ الاسلامیہ قاسم العلوم ریواں سدھارتھ نگر
————————————–

میرے بڑے ابو!

١٩٩٦ میں سعودیہ سے واپس لوٹنے کے بعد والد محترم کے ساتھ نیپال کی سرزمین پر ہم جن کے گھر سب سے پہلے مہمان بنے وہ ہمارے محسن و مربی، مشفق و رفیق، استاذ و عزیز فضيلة الشيخ فضل حق مدني رحمه اللّٰه تھے…
میرے ہم عمر، ہم سبق، دوست و رفیق حافظ حمید حسن سلفی سے دوستی کی ابتدا وہیں سے ہوئی… دوڑ ماضی کی طرف ائے گردش ایام تو… زمانہ کس تیز رفتاری سے گزرا کہ خاک نے اب وہ محسن اپنے اندر سمو لیا… إنا للّٰه و إنا إليه راجعون
اللّٰہ استاد محترم صہیب حسن مدنی، حامد بھائی راشد بھائی، حمید بھائی خبیب و حمود اور سب کو صبر و ہمت دے،

بڑے ابو مجھے بہت عزیز رکھتے، پند و نصائح سے نوازتے تھے، نیپال سے واپس لوٹنے کے بعد جب ہم مبارکپور جایا کرتے تو داداجان (عبدالرحمٰن بن عبيد اللّٰہ الرحمانی) کے پاس بڑے ابو کا اکثر بیشتر آنا جانا لگا رہتا تھا، اس دوران ملاقات ہوا کرتی تھی، علم و عمل کا پیکر، سیرت و اخلاق کا گوھر نایاب تھے…
ہم ان سے تعلقات اور زندگی میں ان سے ملاقات اس گھرانے سے لگاؤ اور ان سے ملے ہوئے کرم و احسانات پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اتنی جلدی اس دار فانی سے رخصت ہونے پر رنج و الم کا ایک بار دل و دماغ پر محسوس کررہے ہیں… اللّٰہ ہم سب کو صبر و ہمت دے اور ہم سب کو اعلیٰ علیین میں ایک ساتھ جمع فرمائے…
اس روح فرسا خبر کو سننے کے بعد بس یادیں چھائی ہوئی ہیں دعائیں جاری ہیں اور اب بکھرے ہوئے ٹوٹے الفاظ میں دل کا بار ہلکا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے…
ان کی منقبت و تعزیت میں لکھے جا رہے تأثرات ، ان کی یاد سے غافل نہیں ہونے دے رہے…
اللّٰہ اللّٰہ… کیا خوب شخصیت تھی… ہمارے محسن و مربی بڑے والد… اللّٰه اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته يارب العالمين

✍🏻 أبو عبدالرحمٰن ابن زهير بن عبدالرحمٰن الرحماني المباركفوري

—————————————-
یہ سانحہ کس قدر اندوہناک اور جانکاہ ہے کہ خانوادۂ مبارکپور کے علمی ورثے کے امین، معلمِ اخلاص و تقویٰ، اور داعیِ کتاب و سنت شیخ فضل حق مدنی مبارکپوری رحمہ اللہ ہم سے رخصت ہو گئے۔ ان کی زندگی درس و تدریس، زہد و تقویٰ، اصلاح و دعوت، اور تواضع و حلم کا حسین امتزاج تھی۔ ان کے علمی و روحانی فیضان سے نہ جانے کتنے اہلِ علم و فضل نے استفادہ کیا اور آج بھی ان کے شاگرد مختلف علمی و دینی میدانوں میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

عبد المتین السراجی

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter