مبارکپور / کیر خبر
نيپال کی قدیم دینی دانشگاہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کے سابق موقر أستاذ اور بزرگ عالم دین مولانا فضل حق مدنی مبارک پوری کا دہلی میں طویل علالت کے بعد مورخہ ١١ فروری کو انتقال ہوگیا إنا للہ و إنا الیہ راجعون
دہلی سے بذریعہ ایمبولینس نعش مبارکپور لائی گئی اور مورخ ١٢ فروری کو بوقت نو/بجے شب آبائی وطن مبارک پور کے قبرستان شاہ پنجے میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی – نماز جنازہ ان کے فرزند ارجمند مولانا راشد حسن سلفی پڑھائی- جنازہ میں ہند و نیپال کے دینی و تعلیمی اداروں سے وابستہ سیکڑوں علماء و سماجی شخصیات نے شرکت کی –
دوسری جانب شیخ فضل حق مدنی مبارکپوری کی نمازِ جنازہ غائبانہ بروز جمعہ، بعد نمازِ مغرب، مسجد نبوی، مدینہ منورہ (باب الرحمة، باب نمبر ٤) کے قریب ادا کی گئی- جس میں جامعہ اسلامیہ کے طلبہ و عقیدتمندوں کی قابل ذکر تعداد شریک تھی –
ذیل میں شیخ رحمہ اللہ کے تعلق سے بعض اصحاب علم و فضل کے تاثرات و احساسات نقل کئے جارہے ہیں:
———————————————————————–
نہایت ہی رنج و افسوس کے ساتھ یہ خبر سنی گئی کہ نیپال کی قدیم دینی دانشگاہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر کے سابق موقر أستاذ اور بزرگ عالم دین مولانا فضل حق مدنی مبارک پوری صاحب کا بتاریخ 11/فروری 2025ء بوقت تقریبا ساڑھے گیارہ بجے شب طویل علالت کے بعد بعمر تقریبا 70 / سال دہلی میں انتقال ہوگیا ۔اناللہ وانااليه راجعون.اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه واكرم نزله ووسع مدخله ونقه من الذنوب كمانقيت الثوب الابيض من الدنس وادخله الفردوس الاعلى من الجنة والهم اهله وذويه الصبر والسلوان.ان العين تدمع والقلب يحزن ولانقول الابما يرضى ربناسبحانه وتعالى . ان لله مااعطى وله مااخذ وكل شئى عنده باجل مسمى.
جب آنکھ کھلی تو حضرت مولانا فضل حق مدنی کو دیکھا ان کی محبت شفقت ہمیشہ اپنے ارد گرد پائی؛ ان کے فرزندان برادر گرامی مولانا صہیب حسن و برادران حامد حسن و راشد حسن کے ساتھ بچپن گزرا ہے ایک گھریلو اور خاندانی تعلق کی بنا پر کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ شیخ محترم اور ان کی فیملی کا گھر جھنڈا نگر سے باہر ہے؛ انہوں نے پوری زندگی تعلیم و تعلم میں لگادی اور جھنڈا نگر کے ہو کر رہ گئے- شیخ محترم ہم سب کے مربی تھے بڑی ہی نرمی کے ساتھ غلطیوں پر نوٹس لیتے تھے – انتہائی سادہ زندگی گزاری کو ئی تڑک بھڑک نہیں’ کوئی ریا و نمود نہیں؛ اخلاق کریمانہ اور تقویٰ و طہارت سے عبارت انکی حیات مبارکہ تھی- ایسی بے لوث شخصیت کے سانحہ ارتحال پر دل ملول ہے : ایسا کہاں سے لائیں تجھ سا جسے کہیں
رب کریم ہمارے مربی محترم کی مغفرت فرماے انکی خدمات جلیلہ کو قبول فرماے؛ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے: آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے-
غمزدہ: عبد الصبور ندوی- کٹھمنڈو
——————————————————————————
میرے بڑے ابو!
١٩٩٦ میں سعودیہ سے واپس لوٹنے کے بعد والد محترم کے ساتھ نیپال کی سرزمین پر ہم جن کے گھر سب سے پہلے مہمان بنے وہ ہمارے محسن و مربی، مشفق و رفیق، استاذ و عزیز فضيلة الشيخ فضل حق مدني رحمه اللّٰه تھے…
میرے ہم عمر، ہم سبق، دوست و رفیق حافظ حمید حسن سلفی سے دوستی کی ابتدا وہیں سے ہوئی… دوڑ ماضی کی طرف ائے گردش ایام تو… زمانہ کس تیز رفتاری سے گزرا کہ خاک نے اب وہ محسن اپنے اندر سمو لیا… إنا للّٰه و إنا إليه راجعون
اللّٰہ استاد محترم صہیب حسن مدنی، حامد بھائی راشد بھائی، حمید بھائی خبیب و حمود اور سب کو صبر و ہمت دے،
بڑے ابو مجھے بہت عزیز رکھتے، پند و نصائح سے نوازتے تھے، نیپال سے واپس لوٹنے کے بعد جب ہم مبارکپور جایا کرتے تو داداجان (عبدالرحمٰن بن عبيد اللّٰہ الرحمانی) کے پاس بڑے ابو کا اکثر بیشتر آنا جانا لگا رہتا تھا، اس دوران ملاقات ہوا کرتی تھی، علم و عمل کا پیکر، سیرت و اخلاق کا گوھر نایاب تھے…
ہم ان سے تعلقات اور زندگی میں ان سے ملاقات اس گھرانے سے لگاؤ اور ان سے ملے ہوئے کرم و احسانات پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اتنی جلدی اس دار فانی سے رخصت ہونے پر رنج و الم کا ایک بار دل و دماغ پر محسوس کررہے ہیں… اللّٰہ ہم سب کو صبر و ہمت دے اور ہم سب کو اعلیٰ علیین میں ایک ساتھ جمع فرمائے…
اس روح فرسا خبر کو سننے کے بعد بس یادیں چھائی ہوئی ہیں دعائیں جاری ہیں اور اب بکھرے ہوئے ٹوٹے الفاظ میں دل کا بار ہلکا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے…
ان کی منقبت و تعزیت میں لکھے جا رہے تأثرات ، ان کی یاد سے غافل نہیں ہونے دے رہے…
اللّٰہ اللّٰہ… کیا خوب شخصیت تھی… ہمارے محسن و مربی بڑے والد… اللّٰه اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته يارب العالمين
✍🏻 أبو عبدالرحمٰن ابن زهير بن عبدالرحمٰن الرحماني المباركفوري
—————————————-
یہ سانحہ کس قدر اندوہناک اور جانکاہ ہے کہ خانوادۂ مبارکپور کے علمی ورثے کے امین، معلمِ اخلاص و تقویٰ، اور داعیِ کتاب و سنت شیخ فضل حق مدنی مبارکپوری رحمہ اللہ ہم سے رخصت ہو گئے۔ ان کی زندگی درس و تدریس، زہد و تقویٰ، اصلاح و دعوت، اور تواضع و حلم کا حسین امتزاج تھی۔ ان کے علمی و روحانی فیضان سے نہ جانے کتنے اہلِ علم و فضل نے استفادہ کیا اور آج بھی ان کے شاگرد مختلف علمی و دینی میدانوں میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
عبد المتین السراجی
آپ کی راۓ