مایوسی امید کو دبوچے جا رہی ہے۔ جو لوگ بھی حساس طبیعت رکھتے ہیں ان کے اندر قوم کے مستقبل کو لے کر ایک بے چینی ہے اور یہ بے چینی بعض دفعہ خود انہیں بھی مایوسی کی کہر میں کھڑا کردیتی ہے۔ مسلمانوں کے افراد کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مسائل کو ذاتی سطح پر سوچنے کے بجائے انہیں قومیانے کا مزاج رکھتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ وہ معجزہ اور مسیحائی کے منتظر ہیں اور خود مسیحا بننے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتے بلکہ اپنی انفرادی زندگی میں اطمینان سے مصروف ہیں۔ دوسری طرف ہماری جو قیادتیں ہیں ان میں سے بعض نے اتنا دھوکہ دیا ہے کہ انسان کو خود پر اعتبار نہیں رہ گیا بلکہ سچائی یہ ہے کہ قیادتوں کا دانہ ہی جسم و بطن کے کھیتوں میں اُگنے لگا ہے۔ ہماری تحریکوں اور تنظیموں میں دستوری طور طریقہ پروان نہیں چڑھ پا رہا ہے؛ شخصیت سے شخصیات نہیں پیدا ہورہی ہیں بالکل برگد کے پیڑ کی طرح جس کے نیچے کوئی پودا نہ اُگ سکے۔ ایسا کیوں ہے کہ ایک معمولی درجے کی تنظیم کے بارے میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فلاں نہ رہے تو اور خرابی آجائے گی یا فلاں نہیں رہے تو مذہبی اور قومی قیادت کا کیا ہوگا! نوجوانوں کے یہاں بالعموم کوئی وژن نہیں ہے۔ تعلیم مثبت اقدار کے بجائے منفی اقدار پر مبنی ہے؛ ہمارے نوجوانوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ صرف دو باتیں ہیں تعلیم ہوگی تو آرام کی زندگی ملے گی یا دوسری قومیں آگے جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور نصب العین نہیں جس کی بنیاد پر ترقی کا خواب دیکھا جاسکے۔ غور کرنے کی جو بات ہے وہ یہ کہ پس ماندگی مسلمانوں کا نصیب کیوں بن گئی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ اس ملک میں برادران وطن بھی رہتے ہیں مگر جیسا کہ ہم خود بیان کرتے ہیں تعلیم کے تئیں محنت، بیداری، تہذیب و تمدن، صفائی ستھرائی وغیرہ میں وہ بلند تر ہیں حالانکہ ۹۵؍فیصد مسلمان خون کے اعتبار سے برادران وطن کے بھائی ہیں کیونکہ ہم یہیں پیدا ہوئے اور یہیں ہم نے مذہب بھی تبدیل کیا تو جب دونوں ایک ہی زمین، ایک ہی تہذیب اور ایک ہی ملک کے پروردہ ہیں پھر دونوں میں اس قدر فرق کیوں ہے؟ اور مسلمانوں میں اگر کچھ بیداری آئی ہے تو وہ مؤثر کیوں نہیں ہے؟ اس کے مطلوبہ نتائج کیوں نہیں پیدا ہورہے ہیں؟
سنجیدگی سے غور کیجئے تو نظر آئے گا کہ مسلمان اور غیر مسلم دونوں کی ترقی کے بنیادی عناصر قطعی الگ ہیں اللہ کے یہاں دونوں کیلئے الگ الگ بنیادیں ہیں۔ غیر مسلم کے کیلئے ’’وأن لیس للإنسان الا ما سعی‘‘ ہے مگر مسلمان کیلئے ’’ان کنتم مؤمنین‘‘ بھی ہے۔ اسلئے مسلمانوں کیلئے اگر ترقی کا وہی ڈھانچہ ہمارے دانشوران تجویز فرمائیں گے تو یہ خالص مقلدانہ فکر ہوگی اور یہ فکر ہماری قومی ترقی کیلئے معاون ہرگز نہیں ہوسکتی ہے۔ پھر ایک دوسری حیثیت سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان غیرمسلموں کے مقابلے میں مادی حیثیت سے کبھی آگے نہیں رہے البتہ مسلمانوں کے یہاں دولت کی منصفانہ تقسیم، منصوبہ بندی، فکر و نظر کی بلندی، قائدانہ مزاج اور بے حد قربانی اور جہد و جہاد کے سچے اور مضبوط عناصر تھے جن کے سبب مسلمانوں کا رعب قائم رہتا تھا۔
ایک اور چیز ہے جس پر ہمیں نظر ثانی کی حاجت ہے کہ ہم نے ماضی کو حال کی ناکامیوں کیلئے پردہ بنالیا ہے اور اس پردہ میں ہم اپنا چہرہ چھپانے کی ناکام کوشش بھی مستقل کرتے ہیں۔ ہم بہت سنتے ہیں کہ فلاں چیز کا تصور مسلمانوں نے دیا، فلاں اور فلاں چیزیں مسلمانوں نے ایجاد کیں وغیرہ اور ایک لامتناہی وغیرہ حالانکہ کسی چیز کی ابتداء یا اس کی مبدئی
حالت اور تھیوری پھر اس کی بنیاد پر موجودہ ترقیات یونہی ممکن نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ مسلمانوں نے بنایا اور موجودہ ترقی ایک آسان سی بات ہے تو خود مسلمانوں نے انہی اصولوں کو استعمال کر کے ترقی کے مدارج کیوں نہیں طے کرلئے؟ ظاہر ہے یہ سوال ارباب نظر کو مشکل میں ڈالنے والا ہے اس لئے صاف ستھری بات یہ کہنی پڑے گی کہ ہر قوم کے عروج کا ایک الٰہی قانون ہوتا ہے اور مختلف اسباب کی بنا پر اسے زوال ہوتا ہے۔ ذہین وہ ہوتے ہیں جنہیں زوال کا ادارک جلد ہوجاتا ہے اور بدلتے حالات میں اپنی اسٹراٹیجی تیار کرلیتے ہیں یا اصلاح کا کام تیز کردیتے ہیں۔ جب بھی اس طریقے میں کمزوری آئے گی زوال کا دورانیہ طویل ہوتا جائے گا اور نکلنے کے راستے مزید بند ہوتے جائیں گے پھر محنت کی کمیت و کیفیت دونوں کا مطالبہ لامحدود ہوجائے گا۔ مسلمانوں کے ساتھ یہی ہوا ہے، انہوں نے زوال کا ادراک کرنے کے بجائے شاندار ماضی اور اپنی تمکنت کو پیش نگاہ رکھا۔ آپ اس کی مثال پرانے زمیندار اور دولت مند گھرانوں میں ڈھونڈھ سکتے ہیں۔ بدلتے حالات میں انہوں نے تنظیم و تدبیر کے بجائے تمکنت اور پرکھوں کی شاندار وراثت کو سامنے رکھا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زمینیں انہی لوگوں کے ہاتھوں بک گئیں جو ان زمینوں میں کبھی بے گار کیا کرتے تھے۔
ملک میں جب مسلمانوں کی ترقی کا زمانہ آیا تو انہوں نے اسے عیش کوشی کا ذریعہ بنالیا اور وہی عیش کوشی ہم تک متوارث چلی آرہی ہے جو اس وقت عجز و کسل کی صورت میں ہمارے یہاں موجود ہے تو جس نوابی عیش و آرام، جن باغات اور شاندار حویلیوں کو ہم اپنی عظمت کی نشانیوں کے طور پر بیان کرتے ہیں دراصل وہی ہمارے زوال کا سبب ہیں۔ وہ ہمارا شاندار ماضی نہیں بلکہ ہمارے بدترین حال کے بوسیدہ اوراق ہیں!
مسلمانوں کی پس ماندگی میں ایک بہت بڑا سبب تعلیم کا بدلتا میڈیم رہا ہے۔ یہ بدلاؤ اچانک نہیں آیا لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس بدلاؤ کا ادراک وقت رہتے نہیں کیا جاسکا ۔ انگریزوں سے پیشتر ملک میں ایرانی اور مجوسی زبان فارسی کو برتری حاصل تھی ظاہر ہے یہ زبان ایک غیر ملکی زبان تھی اور اس کی اپنی تہذیب تھی لیکن چونکہ مسلمان سلاطین کے ذریعہ ہندوستان میں اس کا ورود ہوا اس لئے اسے مذہبی تقدیس حاصل ہوگئی اور اس کے مقابلے میں انگریزی کفر و زندقہ کی زبان قرار پائی حالانکہ دونوں زبانوں میں فکر و عمل کے انحرافات پوری شدت سے موجود تھے مگر روایت پسندی نے ایک کو قبول کیا، دوسری کو رد کردیا۔
انگریزی زبان صرف ملک میں غالب زبان نہیں تھی بلکہ اس وقت ایجادات و انکشافات کی زبان بن چکی تھی چنانچہ اس زبان کو فارسی کی طرح اختیار نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی تعصب کے ساتھ مسلمانوں نے تنزلی کا ایک سبب خود ہی ایجاد کرلیا یہاں یہ کہنا کہ عربی زبان اور دیگر علوم اس اختیار سے کمزور ہوسکتے تھے محض لایعنی بات ہوگی کیونکہ مسلمانوں کے یہاں عربی سے جو کچھ شغف تھا اور اس کی جو صورت حال تھی اہل نظر سے مخفی نہیں ہے۔
ایک انتہائی متنازع چیز تقلید ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک مسلکی اور مذہبی بحث ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تقلید جامد کے اثرات مذہبی معاملات سے آگے مسلمانوں کے تہذیبی، اقتصادی اور معاشرتی رویوں پر بھی پڑے، اس فکر نے مسلمانوں پر اجتماعی اوراجماعی جمود طاری کردیا۔ غوروفکر کے سوتے خشک ہوگئے اور جمود کی برف نے رگ حیات کو یخ بستہ کردیا۔ اس کے سنگین نتائج کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہندوستان میں جب قرآن کا ترجمہ ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایا گیا۔ جب مذہبی حسنات کا معاملہ اتنا سنگین تھا تو دیگر چیزوں کو قیاس کرنا بہت آسان ہے۔ تقلید کے نتیجے میں پوری قوم معمولی درجہ کے جاہل ملا مولویوں کی بھی باجگزار ہوتی چلی گئی ۔ایک طرف جمود وحصار کا یہ عالم اوردوسری طرف فکری آوارگی اس قدر بڑھی کہ جو عالم جس قدر مسائل فرض کرے، از خود اعتراضات نکالے، مذہبی رُکاوٹوں میں پھنس جانے والے امراء و سلاطین اور دوسرے با اثر لوگوں کیلئے حیلے تراشے وہ اتنا ہی بڑا فقیہ ہے۔ آپ کتابوں میں وہ عجیب و غریب ذہنی ترک تازیاں دیکھیں گے جوکسی غیر مقلد اور آزاد فکر کے بس کی بات نہیں ہے۔ غرض قومی ذہن ایک علمی گڑھے میں غیر علمی حرکت کا شکار ہوگیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو جو برتری حاصل تھی اس نے تعیش کار خ اختیار کرلیا۔ دین و مذہب طرّوں اور کلاہوں میں تو بہت شاندار نظر آتے مگر داخلی زندگی کی نیام خالی رہ گئی۔
بڑا سوال یہ ہے کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب آگے ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کیسے کرنا چاہئے یہ سوال جب بھی آتا ہے قوم ایک کانفرنس کرلیتی ہے اور خاموش ہوجاتی ہے۔ مذہبی قیادت نے یہ سوچ رکھا ہے کہ کام کے وسائل کوئی ہمیں لاکے دے جائے گا اور کام کرنے والے مکمل رہبانیت کے ساتھ از خود جوق در جوق چلے آئیں اور ہم خود مسند قیادت پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے فکر و عمل کے شاندار مناظر سے محظوظ ہوسکیں گے۔ اگر قیادت اسی کا نام ہے تو گاؤں کا للّو پردھان بھی یہ قیادت بہ آسانی کرسکتا ہے۔ ایک بات عرصے سے یہ کہی جاتی ہے کہ اصل افرادہیں اگر افراد اچھے ہوں گے تو قیادت بھی اچھی ہوگی لیکن اسی اصول کی بنا پر اگر کہا جائے کہ قیادت بری ہے تو یہ بات کبھی تسلیم نہیں کی جائیگی۔ بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ افراد ہی سے قیادت پیدا ہوتی ہے مگر اس سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قیادت سب سے اچھے فرد یا سب سے کم برے شخص کو دی جاتی ہے اب قیادت کا کام یہ ہے کہ افراد کی تنظیم کرے، معاملات کی تدبیر کرے اور مسائل کی تفہیم کرے۔ سبب یہ ہے کہ آپ نبوی مشن پر ہیں اور آپ خود یہ چاہتے ہیں کہ قیادت کو بدلِ خلافت جیسا احترام ملے لیکن حق کے اس دعوی کے ساتھ ذمہ داری بھی انجام دینی پڑے گی اور یہ ذمہ داری ہمارے اداروں اور تنظیموں پر لاگو ہوتی ہے اس کے بعد من حیث العموم علماء کرام پر اور پھر عام تعلیم یافتہ طبقہ پر۔ ’’وسائل محدود ہیں مسائل لا محدود ہیں‘‘ جیسے اعذار اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہوں گے وہاں صرف آپ کی سعی مشکور کی بابت سوال ہوگا کہ آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں کس طرح ادا کیں؟ یہی ہمارے مسائل کا فوری حل ہے ۔ قیادتوں کے ذمہ افراد کی تربیت اور افراد کی تنظیم دونوں ہے۔ ہمیشہ یہ کام قیادتوں ہی نے کیا ہے اس کے دلائل وافر تعداد میں فکری، نظری اور عملی ہر سطح پر موجود ہیں۔
اب اگر ہم نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی تو آج کی مایوس نسلوں کا ذمہ دار بھی ہمیں کو ٹھہرایا جائے گا۔***
آپ کی راۓ