پھر اختلاف کا ذمہ دار کون ہے؟

شعبان بیدارصفاوی

24 اپریل, 2018
کوئی بھی رسالہ اٹھائیے ہر دو تین مہینے میں اتحاد و اتفاق پر ایک عدد مضمون پڑھنے کو ضرور مل جائے گا اور ہر پانچ پروگرام میں ایک دو تقریریں اتحاد ملت کے حوالے سے سننے کو مل جائیں گی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملت اتحاد چاہتی ہے۔ اگر ملت یقینا  اتحاد چاہتی ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے مگر اس سوال پر کبھی غور نہیں کیا گیا کہ اتحاد چاہنے والے بالعموم سب ہیں تو اختلاف کرتا کون ہے؟ کیونکہ عملاً اختلاف کرنے والے زیادہ ہیں اور اتحاد کرنے والے کم۔ آئیے ہم اس سوال پر  سنجیدگی سے غور کرلیتے ہیں ممکن ہے غور کرنے کا راقم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے  درست نہ ہو اور اسے کوئی اور نام دیا جائے بایں ہمہ آپ سے گزارش ہے کہ جن نکات پر کچھ گزارشات کی جارہی ہیں انھیں انتہائی توجہ سے پڑ ھ لیں۔
امر واقع کی حیثیت سے جو اختلاف بالفعل ہمارے یہاں موجود ہے فی زماننا اس کی ذمہ دار بعض مسلکی اقلیتیں ہیں ۔دعوت دین میں ان کا جو لب و لہجہ اور انداز بیان ہے فقہی مسائل کے شرح و بیان اور پیشکش کے طریقے میں آج کل جو ناپسندیدہ طریقہ انھوں نے اختیار کررکھا ہے وہ سنجیدہ مزاج افراد کے  لیے پریشان کن ہے۔ بلاشبہ بعض دفعہ رَدّ و تردید میں جیسے کا تیسا والا انداز اختیار کرنا پڑتا ہے مگر ایک مستقل مزاج اور منفرد آئیڈیا لوجی کی حیثیت سے زبان و بیان کا جو طریق اختیار کیا گیا ہے اس کے آثار و نتائج کچھ اچھے نہیں ہیں۔
ذمہ داری کی فہرست میں مسلکی اکثریتوں کا رویہ کچھ زیادہ ہی مکروہ اور ناقابل فہم ہے کہ انھوں نے اسلام اور ملت کے بجائے اپنی فقہی نسبتوں کو اس درجہ عزیز رکھا ہوا ہے کہ اس کے  لیے وہ بہت سارے منکرات و محرّمات بھی انجام دینے کو تیار ہیں وہ بھی بدلے اور ثواب کی نیت سے فالعیاذ باﷲ العظیم۔
آپ آزادی کے بعد سے اب تک کے منظرنامے پر ایک سرسری نگاہ دوڑائیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ مسلکی اکثرتیوں نے ہمیشہ نام ملت کا لیا ہے اور کام مسلک کا کیا ہے۔
اس وقت جن مسائل کو بنیاد بناکر یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار کی جارہی ہے کیا وہ اکثریت کے فقہی مسائل نہیں ہیں؟ جو فقہی نسبتوں کا امتیاز بن گئی ہیں۔ یقینا باطل کا اصل نشانہ اسلام اور ملت اسلامیہ ہیں مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے نقطہ آغاز کس چیز کو بنایا اور کون سی زمین ہے جو فرقہ پرستوں کو زعفران کاشت کرنے کے  لیے کافی زرخیز نظر آئی ہے۔ تیوہاروں اور مناسبات کی طرف توجہ کیجئے تو وہاں بھی یہی سمجھ میں آئے گا کہ مذہبی شرانگیزی کی دکان مسلکی اکثریت کے محلے میں لگائی جا رہی ہے۔ آپ صرف مائک کا معاملہ دیکھ لیجیے اذان کے علاوہ نظموں ، سلاموں اور قوالیوں کے  لیے کون دیر تک لاوڈ اسپیکر کا استعمال کر رہا ہے۔
صورتحال کا یہ مکروہ سلسلہ بھی دیکھیے کہ ایک طرف فرقہ پرست اکثریت مسلکی اکثریت کے اعمال و اشغال کو ذریعہ بناکر مسلمانان ہند کو زمانے سے نشانہ بنا رہی ہے تو دوسری طرف ظلم و ناانصافی کے خلاف دھرنا پردرشن کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کی تیار کردہ نسلیں تقریباً وہی کچھ انجام دیتی رہی ہیں جو فرقہ پرست طاقتوں کا امتیاز ہے۔
بلاسبب مسلکی اقلیتوں کے پروگراموں کو رکوانا، انھیں قتل کرنا، ان پر حملے کرنا، ان کی مسجدیں گرانا، انھیں ہراساں  کرنا، مسجدوں کی تعمیر رکوانا، ان کے خلاف عدالت جانا، حکومت سے ان کی شکایتیں کرنا وغیرہ اب ڈھکے چھپے معاملات نہیں رہ گئے۔ حتی کہ دہشت گردی جیسا حساس مسئلہ جو مل بیٹھ کر غور کرنے کا تھا بغض و عناد کے اظہار کا ذریعہ قرار پایا۔ اگر کسی کے یہاں اس کی آبیاری بالفرض پائی بھی جاتی تو یہ انھیں محبوبانہ طریقے سے متنبہ کرنے کی چیز تھی مگر ہوا یہ کہ دہشت گردی آپسی نفرت و عداوت کے اظہار اور دل میں لگی آگ بجھانے کا ذریعہ بن گئی او رباقاعدہ انٹلی جنس میں شکایتیں کی گئیں، میڈیا میں بیانات جاری کیے گئے اور اپنے اس طرح کے مکروہ اقدامات اور نفرت انگیز پیش قدمیوں سے یہ ثابت کیا گیا کہ حضور والا آپ کی بات بالکل صحیح ہے: اسلام اور مسلمانوں میں دہشت گردی پوری طرح سے موجود ہے۔ سو بھائیو مقام عبرت ہے کہ ہم باتیں تو اتحاد کی کرتے ہیں مگر اختلاف کے کس کھڈ میں گرچکے ہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔
اتحاد کی آواز تب اٹھتی ہے جب کوئی مسئلہ ہوتا اور خاص طور پر جب ہم نے احتجاج اور احتجاجی پروگرام کا من بنالیا ہو۔ اب تو احتجاج بھی سب کے الگ الگ ہورہے ہیں اور اتحاد بھی !!  بہرحال اتحاد اور احتجاج کی قابل قبول صورتیں اب بھی موجود ہیں۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتجاج کرنا حرام ہے یا احتجاج بالکل لایعنی چیز ہے؟ ہرگز نہیں احتجاج کرنا حرام ہے نہ بالکل لایعنی ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ احتجاج سے زیادہ اہم اور مفید چیزیں ہمارے یہاں مفقود ہیں اور اگر ہیں بھی تو کچھ اس طرح کہ انھیں خبر بنایا جاسکے۔ اچھے نتائج تب پیدا ہوں گے جب خیر اتنی کثرت سے انجام دیا جائے کہ وہ خبر بنانے لائق نہ رہ جائے۔ کیا اچھا ہوتا اگر ہمارے خطباء عظام اور دعاۃ کرام مسلکی موضوعات پر بھڑکاؤ تقریر کرنے، مسلک پھیلانے کا بے انتہا جنون پالنے، اور شعر شور انگیز کا شوق رکھنے،  شعور کے دریچے بند کرنے کے بجائے سماجی اور گھریلو موضوعات کا فہم پیدا کرتے، انسانی اور سماجی نفسیات کا مطالعہ کرتے باسلیقہ گفتگو کی مشق کرتے اور آنکھیں سرخ کیے بغیربھی کوئی بات پیش کرنے کا ہنر سیکھتے پھر سماجی اور عائلی مسائل پر مختلف حوالوں سے توجہ فرماتے ۔
تبلیغی جماعت ملک کی بے حد طاقتور اورا نتہائی بڑی جماعت ہے اس کا ایک بنا بنایا سسٹم موجود ہے جو اچھی طرح اپنی فکر کے مطابق کام بھی کر رہا ہے۔ اگر یہ لوگ چھ نمبروں کے ساتھ ضمنی طور پر ایک نمبر گھر اور سماج کا شامل فرمالیتے تو   میں  نہیں سمجھتا کہ بدلاؤ نہیں آتا۔ کاش ہمارے بھائیوں کو مسجدوں پر قبضہ کرنے ، مسلکی تنازعات میں مبتلا ہونے سے فرصت ملے !!!  اور اپنے اسٹیج سے ملت کا یہ بڑا کام کریں تو گھروں میں انتشار کی جو تکلیف دہ صورت حال ہے وہ ختم ہوسکتی ہے۔ آج معاملے کی سنگینی یہ ہے کہ گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں اوربہن  100 نمبر پر فون کردیتی ہے ۔ ساس بہو کو پیٹتی ہے اور کبھی بہو ساس کے بال نوچتی ہے۔ گھروں میں نفرت ایسی ہے کہ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی بیماریوں پر بھی توجہ نہیں ہوتی ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بدترین قسم کی گالی گلوچ روزانہ سنتے ہیں۔ میاں بیوی میں آئے دن بگاڑ پیدا ہوتا رہتا ہے غرض دیہاتوں کا بطور خاص پورا عائلی نظام ہی تہس نہس ہے اور اس کی روشنی میں سماجی صورت حال کا بھی اندازہ کیا جاسکتاہے ۔ ایسے میں طلاق کی کثرت اور عورتوں کے کورٹ جانے میں ذرا بھی تعجب نہیں ہوتا ہے اور یقین مانئے احتجاج اس بگڑی زمینی صورتحال کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتا۔
بریلوی طبقہ ملک کا سب سے بڑا مسلکی طبقہ ہے اس کے یہاں جہالت بھی بہت زیادہ ہے۔ دین کے نام پر عرس، قوالی ، طواف قبور، شعروشاعری، حلوہ  ملیدہ ٹائپ تقریروں، مسلکی گالیوں کے سواکوئی اور چیز انھیں کم ہی معلوم ہے۔ سنی دعوت اسلامی اور دیگر جماعتیں اس طبقے میں بہت بڑی افرادی اور انتظامی قوت رکھتی ہیں ۔اگر یہ جماعتیں خود کو دوسرے مسالک کو جیل بھجوانے اور مساجد و مدارس پر پابندی لگوانے کی آرزوؤں سے خود کو آزاد کر سکیں تو اصلاح و تبدیلی کا بہت بڑا کام کرسکتی ہیں۔
جہالت کا خاتمہ محض خواندگی سے ممکن نہیں ہوسکتا اب خواندگی کی وہ پرانی صورت کچھ فائدہ نہیں  پہنچا سکتی۔ اب جہالت کے خاتمے کے  لیے   ہرشخص کو خواندہ کے بجائے تعلیم یافتہ بنانا پڑے گا او راحساس و شعور کی تبدیلی کا کام از بس ضروری ہوگا۔ مسائل کی تفہیم تحریک کی سطح پر کرنی پڑے گی، دارالقضاء، رفاہی ادارے، تعلیم بالغاں، صلح کمیٹی، سماجی کاؤنسلنگ، نوجوانوں کی قوت و ذہانت کا متبادل اخراج، ان کے فکری اور جنسی مسائل غرض مختلف عناوین سے ہر ہر محلے اور منطقے میں ہماری جماعتیں اور تنظیمیں متحرک ہوجائیں تو جیسا بھی کالا قانون یہ بنادیں ہمارے سماج کی صورت حال ان کے مطلوبہ درجات تک ہرگز نہیں بگڑ سکتی یا پھر قوانین اور پروپیگنڈے قطعی بے اثر ہو جائیں گے تحریکوں اور تنظیموں کے کرنے کا کام بھی یہی ہے اگر وہ سمجھیں۔ مذکورہ بالا قسم کی گفتگو جب بھی آتی ہے مسلم پرسنل لاء کا نام صفحہ ذہن پر فوراًابھرآتا ہے !!  سینے پر ایک چوٹ لگتی ہے اور زخموں کے ٹانکے کھل جاتے ہیں کیونکہ مسلم پرسنل لاء کا ہر تعصب قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ علاقائی تعصب، تنظیمی تعصب اور مسلکی تعصب  غرض ہر تعصب!  مسلم پرسنل لاء اگر مسلک پرسنل نہیں ہوتا یا صرف دیوبندی پرسنل لاء نہیں ہوتا تو آج صورت حال وہ نہیں ہوتی جو ہے۔ آپ ذیلی اکائیوں پر نظر ڈالیے وہاں ان کے فقہی بھائی بریلوی بھی موجود نہیں ہیں۔ مرکزی سطح پر دوسرے مسالک کی یک چہرہ نمائندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مسائل کے حل میں ملی اور مسلم رجحانات کے بجائے مسلکی رجحانات کو واحد تعبیر گردانا جاتا ہے۔ بحیثیت اختلاف بھی دوسرے مواقف کا تذکرہ بھول کر زبانوں پر نہیں آتا خود طلاق کے معاملات میں ایک خاص تعبیر کا جو فطری نتیجہ نکلتا ہے وہ مسلکی زنا یعنی حلالہ ہے۔ اس لیے عملا ًحلالہ پر بھی کوئی روک نہیں لگائی جاسکتی ہے۔ ایسی حالت میں امت کو یہ حضرات کس طرح متحد رکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل الحدیث اور جماعت اسلامی کے سوا تقریباً سب کا اپنا پرسنل لاء ہے اور فقہی طور پر جماعت اسلامی چونکہ حنفی ہے اور افراد کے اعتبار سے بیشتر اس میں دیوبندی حضرات موجود ہیں اس لیے ان کا الگ نہ ہونا کوئی خاص معنی بھی نہیں رکھتا۔ اب بھلا بتائیے جب ملک کی اتنی بڑی تنظیم جو ملت کی نمائندگی کررہی ہے مسلکی رجحانات سے کام کرے گی وہ بھی موجودہ بری پوزیشن میں تو ملت کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ملت اسلامیہ ہند کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے وہ کچھ نئے  نہیں ہیں آپ کوئی ایک مسئلہ ایسا نہیں بتا سکتے جو آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو درپیش نہ رہا ہو بلکہ قتل و غارت گری کی بات کیجئے تو آزادی مل جانے کے بعد جس طرح سے فسادات کا سلسلہ اُٹھا تھا وہ ناقابل بیان ہے۔ لیکن جب یہ سب کچھ تھم گیا اور تقسیم کا الزام صرف ایک نظریے اور خیال کی حیثیت سے باقی رہ گیا  اس کے بعد جو حالات  پید اہوئے اور جو موجودہ حالات ہیں دونوں میں کافی فرق ہے۔
(۱)  اس وقت فرقہ وارانہ اپروچ زیادہ ہے اور فرقہ پرستی نے اپنے مظالم کے  لیے ایک فلسفہ اخلاقیات بنا لیا ہے پہلے یہ اپروچ بظاہر کم تھی۔
(۲) پہلے آئین و قانون مسلمہ حیثیت رکھتے تھے مگر اب وہ بات نہیں۔ اب کھلے عام آئین پر تنقید کی جاتی ہے۔ ڈھٹائی کے ساتھ غلط کاریوں کو ثابت کیا جاتا ہے اور ان پر فخر کیا جاتا ہے۔ مظالم اور غلط کاریوں  پر پہلے تاویل کی جاتی تھی یا معاملہ دبانے کی کوشش ہوتی تھی اب بار بار ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ آئین کو بھی کٹگھرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔
(۳) پہلے حکومت جس طرح کی بھی تھی وہی لوگ چلاتے تھے جو منتخب ہوکر آتے تھے مگراب حکومت تقریباً مکمل ڈھنگ سے وہ لوگ چلا رہے ہیں جنھوں نے ذمہ داری دے کر پورے دستے کو حکومت میں بھیجا ہے  یعنی اب حکومت مخصوص قسم کے پرائیویٹ ہاتھوں میں ہے۔
(۴) قتل و غارتگری پہلے بھی تھی مگر اب نسلی تطہیر جیسی صورت حال ہے۔ پرسنل لاء پر سوالات پہلے بھی اٹھائے جاتے تھے مگر اب پورا وجود سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ مذکورہ مسائل و معاملات اور ان کے علاوہ جو بھی چیزیں ہیں ان کا حل ہر مجلس، ہر گفتگو ، ہرمیٹنگ میں اتحاد بتایا جاتا ہے امر واقع یہی ہے بھی کہ اتحاد ایک بہت بڑا علاج ہے ایسا اتحاد جس کے پیچھے عمل کی تکنیک ہو ۔ بھیڑ والا اتحاد کسی کام کا نہیں یہ تو دوسروں کو متحد کرتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جس اتحاد کی ہر دم بات کی جاتی ہے اس کی صورت حال بھی بڑی دردناک اور پیچیدہ ہے۔ چند برسوں سے ہمارے علماء کرام نے اپنے مخالف مسلک والوں سے اختلاف کا اظہار جس غلیظ اور ظالمانہ طریقے سے کیا ہے اس کی کچھ نظیر اگر مل سکتی ہے تو صرف انگریزی دور میں۔ قبرستان سے غیر مسلک کے مردے اُکھیڑ دینا،مساجد کی تعمیر میں رُکاوٹ ڈالنا، مساجد میں نماز نہ پڑھنے دینا، مسلک بدلنے پر قتل کردینا، فرقہ پرستوں کی طرح ماحول بناکر مسلکی فسادات کروانا کوئی معمولی چیز سمجھتا ہے تو سمجھے مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے کوئی پائیدار اور نتیجہ خیز اتحاد پیدا ہوسکتا ہے۔ اتحاد کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ان میں بلا مبالغہ اتحاد جیسی کوئی بات سرے سے موجود نہیں ہے کہ اتحاد کے جھنڈا بردار اپنے اس عمل میں قطعی مخلص نہیں۔ دوسرے لوگوں کو شامل کرنے کی دعوت صرف بھیڑ میں اضافہ کےلیے ہوتی ہے ورنہ یہ خود نہیں چاہتے کہ دوسرے لوگ اتحاد کے عمل میں برابر کے حصہ دار ہوسکیں۔
مذہبی اکثریت کے مظالم، ان کی ناانصافیوں، تاریخ سازی، تاریخ میں جھوٹ کی آمیزش کی باتیں بہت ہوتی ہیں مگر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مسلم فرقوں میں جو جس قدر اکثریت اور طاقت میں ہے مسلکی اقلیتوں پر ظلم کرتا ہے اور ظلم و جبرکو مذہبی مقدسات سے ڈھانپ دیا جاتاہے سو جب ہم خود اکثریت اور سواد اعظم کے نشے میں بدمست ہیں تو مذہبی اکثریت کی بدمستیوں کا شکوہ کیسا؟  حقیقت یہ ہے کہ حقیقی اتحاد کےلیے اپنی بعض انفرادیت اورامتیازی چیزوں سے کسی نہ کسی انداز میں دستبردار ہونا پڑتا ہے اور صلح تو تنازل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی مگر بدقسمتی سے اکثریت نے ان چیزوں کو دین و ایمان کا جزبناکر پیش کیا حتی کہ اس معاملے کا دفاع کیا جو خود ان کے یہاں بھی ملعون عمل ہے اور پوری امت کی اس سے جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ ہاں مگر اسی ملعون پر وہ شرح صدر کے ساتھ عامل بھی ہیں اس لعنتی فعل کے دفاع کی انھیں ا س لیے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ یہ طلاق ثلاثہ کے مخصوص فقہی نظریہ کا لازمی اور طبعی نتیجہ بھی ہے کیونکہ بیک وقت والے طریقے میں نناوے فیصد پچھتاوا ہوتا ہے اور پھر اس کا ازالہ اس منصوبہ بند زنا سے ہی کیا جاتا ہے۔ آپ تعجب کیجیے کہا جاتا ہے کہ حلالہ ملعونہ کو ہم درست نہیں کہتے مگر گلزار اعظمی کا اس لنک پر بیان پڑھیے:
 تو کچھ اندازہ ہوجائے گا۔ پھر سیاسی بیان الگ ہے اور عملی کردار الگ ہے۔ کچھ سالوں سے سب نے فتوی میں بھی لکھنا ترک کردیا ہے مگر عمل جاری و ساری ہے۔ اسی سماج میں ہم بھی رہتے ہیں اور آئے دن یہ سب دیکھتے سنتے ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ کہا جاتاہے اہل الحدیث حکومت کے فیصلے سے خوش ہیں بھلاپھر ہم حلالہ ملعونہ پر مشتمل فارم کیوں بھرتے بھرواتے۔ ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نشانے پر کوئی مسلک نہیں اسلام اور مسلمان ہیں بلاشبہ بات یہی ہے مگر کیایہ چیز آپ کو اس بات کا جواز فراہم کرتی ہے کہ آپ غلط اور گندی چیز کو بھی جسٹیفائی کریں اور جو چیزاس گندگی کا سبب بن رہی اسے محض اس لیے گلے سے لگائے رہیں کہ کہیں دوسرے مسلک کی جیت نہ ہوجائے بھئی سیدھی سی بات تھی مسلم پرسنل لاء ملی ادارہ ہے اس میں کسی بھی فقہ پر حالات و ضروریات کے پیش نظر فیصلہ کیا جاسکتا ہے یہ مسلک کی فتح و شکست کا تصور تبھی آئے گا جب آپ نے بورڈ کو کچھ اور سمجھ رکھا ہو۔ میرا سوال یہ بھی ہے کہ نشانہ بلاشبہ اسلام اور مسلمان ہیں مگر کیا یہ نشانہ ہم کو منافقانہ مسلکی سیاست کی اجازت دیتا ہے؟ آپ زمانے سے یہ سیاست کھیل رہے ہیں اور جب ہم اصولی تنقید کرتے ہیں تو آپ اسلام اور مسلمانوں کی دہائی دے کر لطف حلالہ کو چھپانے کی کوشش فرماتے ہیں۔
سو جان لیجیے اس طرح کا مصنوعی اتحاد نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مسلم ہی رکھیے مسلک بورڈ مت بنائیے اور ہاں کبھی جیت ہار جانے میں ہوا کرتی ہے کاش آپ لوگ ہار کر جیتنے کا ہنر جانتے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter