شادی ہال اور میزبان
ام ھشام
وہ خوبصورتی اور معصومیت سے بھرپور ,تقریبا تیرہ چودہ سال کی بچی رہی ہوگی جس نے میری توجہ اپنی جانب مرکوز کررکھی تھی – وہ باربار اپنے لباس کو درست کررہی تھی -اسے دیکھ کر ہی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ اپنے لباس میں آرام دہ محسوس نہیں کررہی – اس لڑکی کا دھان پان سا وجود اور اس پر پانچ میٹر کی ساڑی ,معصوم سی آنکھیں لیکن میک اپ سے سیاہ , سرخی مائل ہونٹ لیے وہ بہت جز بز ہورہی تھی یہ کوئی مہمان لڑکی نہیں تھی جو میک اپ سے لیس ہوکر شادی کی تقریب میں شرکت کرنے آئی تھی –
وہ تو ایک میزبان تھی ,جی !!جسے آج عرف عام میں ویٹریس کہا جاتا ہے – اسکی بے چینی دیکھ کر میں نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا .. وہ مسکراتی ہوئی آئی اور کہنے لگی دیدی آپ کو کیا چاہیے جوس لاکر دوں …میں نے کہا نہیں بس تم کچھ دیر یہاں بیٹھو بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں – اس نے کہا دیدی اگر ایک منٹ کو بھی بیٹھی نا تو وہ جو سیٹھ کھڑا ہے نا میری پگار کاٹ لیگا – میں نے کہا بیٹھو کچھ نہیں ہوتاابھی تو کھانا بھی شروع نہیں ہوا –
میں نے اس سے سوالات شروع کیے باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ گھریلو معاشی پریشانیوں نے اسے ویٹریس بننے پر مجبور کردیا ہے- وہ ایسے کپڑوں میں اچھا محسوس نہیں کرتی لیکن لوگوں کی نظر میں پرکشش لگنا انکی جاب کا پہلا حصہ ہےاسلیے انہیں ایسے کپڑے پہننے پڑتےہیں اور تیز میک اپ لگانا ہوتا ہے –
والد نہیں ہے تین بہنوں میں وہ سب سے بڑی ہے ماں معذور ہے ہے اسلیے اب وہی اپنے کنبہ کا باپ بھی ہے ماں بھی-
اس دوران دوسری میزبان لڑکیاں وہاں جمع ہوچکی تھیں – ہر ایک کے ساتھ یہی ایک مسئلہ مشترک تھا کہ وہ اپنی بنیادی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کو یہ جاب کرتی ہیں – ان سبھی سے بات کرنے کے بعد مجھےجو باتیں انکے تعلق سے علم میں آئی وہ آپ سے ضرور شئیرکرنا چاہونگی – شادی یا پارٹی ہال میں کیٹرنگ کی جومیزبان لڑکیاں ہوتی ہیں انکا درد تکلیف انکی زنگی میں چھپی تلخیاں شاید ہم انکے میک اپ کی تہوں کی اندر نہیں جھانک پاتے لیکن ان میں سے اکثریت کا تعلق سماج کے ان نچلے طبقوں سے ہوتا ہے جہاں جہالت ,بد اعتقادی ,غریبی اور گمرہی کا بسیرا ہوا کرتا ہے – ساتھ ہی تعلیمی پسماندگی کا روگ بھی انکے پلےبندھا ہوتا ہے اکثر لڑکیاں کم پڑھی لکھی ہوتی ہیں – کچھ تو بالکل جاہل ہوتی ہیں – ایک اور قابل غور بات ہے کہ ان میں مطلقہ ,بیوہ یا کنواری بے سہارا خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے – انکی باتیں سنکر میں بے حد تکلیف اور شرمندگی میں تھی وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمیں ایسے لباس پہننے کا کوئی شوق نہیں لیکن کیٹرس والے زبردستی ہم سے ایسے لباس پہننے کا مطالبہ کرتے ہیں جو لوگو ں کی توجہ کا باعث بنے – اسمیں ساڑی بلاوز, پینٹ شرٹ ,اسکرٹ بھی شامل ہیں – انکا کہنا تھا کہ جب شادی ہمارے مسلم لوگوں کی ہوتی ہے تو ہم شکر مناتے ہیں کہ آج صرف عورتوں کی خدمت کرنی ہے ورنہ جس دن ہندوں کی شادی پر ہماری ڈیوٹی لگادی جاتی ہے نہ چاہتے ہویے بھی ہم لوگ انگاروں پر چلتے ہیں ….ان بھیڑیوں کی ہوس زدہ نظریں ہمیں اندر روح تک چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے ایک طلاق شدہ ویٹریس نے بتایا کہ یہ وحشی اتنے درندے ہوتے ہیں کہ کھانے کی ٹیبل پر اپنے انواع واقسام کے کھانوں کو چھوڑ کر بار بار ہمیں بہانے بہانے ٹچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ آگے کہتی ہے قسم اللہ پاک کی ان کی اس حرکت پر جی چاہتا ہے کہ ان ذلیلوں کی بوٹی بوٹی کردوں – لیکن مجبور ہوں کہ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو میرے پیچھے میرے یتیم بچوں کا سہارا کون بنے گا – ساتھ ہی ایک بڑی عمر کی میزبان خاتون نے بتایا کہ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ اپنے گروپ کی کمسن بچیوں کو درندوں کی نظروں سے بچاکر رکھیں- لیکن ہمیشہ ہم کامیاب نہیں ہوپاتے – سیٹھ جہاں جس جگہ جسکی ڈیوٹی سیٹ کرتا ہے ہمیں اسی ٹیبل کی میزبانی کرنی ہوتی ہے – باتوں کا سلسلہ یہیں تک پہنچا تھا کہ ایک آوازآئی کہ کھانے کی ٹیبل پر آو ….بس ان سب کے ساتھ باتوں کا سلسلہ یہیں منقطع ہوگیا- اور میں اپنی جگہ پر بیٹھی یہی سوچتی رہی کہ کتنی بہادر ہیں یہ بے بس لاچار عورتیں جو اپنے کنبے کی کفالت کیلیے اتنی محنت کرتی ہیں چھ چھ گھنٹے بلا تکان شادی ہال میں کھڑی رہتی ہیں – یہ عورتیں ان کاہل اور ناشکری عورتوں سے بہتر ہیں جو کفران نعمت کرتی ر ہتی ہیں
یہ ان کاہل اور ناکارہ مردوں سے حد درجہ بہتر ہیں جو اپنے گھر کی خواتین کو کمانے بھیج کر خود مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں-
یہ ان لاکھوں بے پردہ عورتوں سے زیادہ بہتر ہیں جنہیں اللہ نے دنیا کی تمام نعمتوں سے نواز رکھا ہے لیکن وہ شوقیا بے پردگی کرتی ہیں اور سماج میں بے حیائی پھیلاتی ہیں – یہ عورتیں ان تمام شریف عورتوں سے زیادہ باحیا اور باغیرت ہیں جو پردے میں ہوتے ہوئے بھی اس نعمت کی قدر نہیں کرتی اور پردہ کو ایک حبس سمجھتی ہیں – یہ کمزور سی عورتیں ان طاقتور لیکن دیوث مردوں سے زیادہ بہتر ہیں جو اپنے گھر کی خواتین کی بے ردائی کو روشن خیالی سمجھ کر انکا بھر ہور ساتھ دیتے ہیں –
آخری اور اہم نکتہ : بچیوں میں چھوٹی عمر سے ہی تعلیمی اور اخلاقی شعور کے ساتھ عصمت وعفت کا جوہرپیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تعلیم کے ساتھ اسے کوئی ہنر بھی سکھانا چاہیے تاکہ اگر زندگی میں اسے کبھی نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑے تو وہ اپنے وقار کو قائم رکھتے ہوئے اپنی مالی مشکلات کا حل نکال سکیں – ایسی عورتیں اور بچیاں جو مکمل طور پر سماج پرمنحصر ہیں انکے لیے آپ کیا کہنا چاہیں گے ………..
آپ کی راۓ