درد رکھتا ہوں دل کے اندر تک
کیوں خبر پہنچے دیدۂ تر تک
ٹھہرو ٹھہرو ہے اتنی جلدی کیا
چھوڑ آؤں گا میں تمھیں گھر تک
تو لگاتا ہے آگ جو باہر
وہ پہنچ جائے گی ترے گھر تک
یہ تو سچ ہے کہ ایک قطرہ ہوں
میرے پاس آتے ہیں سمندر تک
اس نئے عہد کی محبت کا
رستہ جاتا ہے صرف بستر تک
یہ غزل ہے میاں !غزل سنیے
اتنا بھی سوچیے نہ اندر تک
میرا مسلک فقط محبت ہے
ہے پہنچ میری دل کے اندرتک
کیوں نہ ہو پھر سحر خسارے میں
روٹھ جائے اگر مقدر تک
آپ کی راۓ