ابھی بھی زیست ترا انتظار کرتی ہے
نہ پوچھ ہجر میں شب کس طرح گزرتی ہے
تمھارا ذکر ہے تسکینِ جان و دل کا سبب
تمھارے ذکر سے میری غزل نکھرتی ہے
تمھاری آنکھوں سے جانا ہے مے کشی کا راز
یہ ایسی مے ہے کبھی جو نہیں اترتی ہے
ترا خیال میں آنا ہے منکشف سب پر
کہ میری آنکھوں صورت تری ابھرتی ہے
تمھیں ہماری یہ صورت نظر بھی کیوں آتی؟
نظر تمھاری کہاں اک جگہ ٹھہرتی ہے
بہت ہی سہل ہے لفظوں کے تیر برسانا
کبھی یہ سوچا کسی دل پہ کیا گزرتی ہے
وہ یاد آتے ہیں جب بھی کبھی سحر مجھ کو
خوشی کی لہر مرے دل میں اک ابھرتی ہے
سحر محمود
آپ کی راۓ