جھنڈانگر نیپال (پریس ریلیز)
مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ جھنڈانگر نیپال میں تین روز تک مسلسل چلنے والی سالانہ انجمن میں بیرونی خواتین کا عظیم اجتماع دیکھنے کو ملا، یہ تعداد اس لئے بھی زیادہ تھی کہ ہماری خواتین اسلام کو جب بھی کسی اجتماع کا سامنا کرنا ہوتا ہے تو خطیب ان کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے لیکن اس پروگرام میں خواتین کے سامنے خطیبہ واضح طور پر ان کے سامنے ہوتی ہے جو انہیں کی بہن، بیٹیاں اور رشتہ دار ہوتی ہیں، وہ خواتین یہ دیکھ کر بہت ہی زیادہ خوش ہوتی ہیں کہ ہماری وہ بچیاں، بیٹیاں جو چند سال قبل گاؤں میں بے پردہ گھوما کرتی تھیں آج الحمدللہ مدرسہ خدیجۃ الکبری نے انہیں اس لائق بنایا ہے کہ وہ اسلام کی دعوت اچھے ڈھنگ سے دے سکیں، اس لئے وہ ایسے پروگرامز میں جوق در جوق شرکت کرتی ہیں، وہ ایک محفوظ گراؤنڈ میں خطیبہ کے سامنے ہوتی ہیں، اس لئے ان کی تعداد منتظمہ کے انتظام سے بھی زیادہ ہوا کرتی ہے۔ انجمن میں مختلف عناوین پر طالبات نے خطاب فرمایا، اسلام میں عدل و انصاف کا مقام، آخرت کا تصور اور دنیا کی حقیقت، وقت ایک عظیم نعمت، بچے کی موت پر صبر کا اجر و ثواب، تیری رحمتیں بے شمار، حسد، کینہ جیسے مختلف عناوین پر طالبات نے ایک بہت بڑے خواتین کے مجمع کے درمیان خطاب فرمایا، یقیناًوہ طالبات مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سکریٹری بزم توحید ندوۃ الطالبات ناجیہ پروین انجم جمال احمد اور ان کے رفقائے کار نے دن رات معلمات کے ساتھ مل کر اس انجمن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
عورت نصف انسانیت ہے اور انسانی معاشرے میں جتنی اہمیت ایک مرد کو حاصل ہے اتنی ہی اہمیت ایک عورت کو بھی حاصل ہے بلکہ کچھ وجوہ سے عورت کی اہمیت کچھ اور فزوں ہوجاتی ہے، اس لئے وہ گھر کی اہم اکائی ہے، اس کے بگڑنے سے پورا خاندان پوری نسل بگڑ جاتی ہے، ان خیالات کا اظہار موجودہ معلمہ سابق ہیڈ معلمہ محترمہ نجمہ پروین ہاشمی نے ندوۃ الطالبات کے سہ روزہ انعامی مقابلہ میں کیا اور کہا: اگر یہ نصف تعلیم یافتہ ہوجائے تو ہمارا پورا معاشرہ علم کا روشن مینار ہوجائے گا۔
حسد ایک عام مرض ہے، بہت ہی کم لوگ اس مرض سے خالی ہوتے ہیں، شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ حس امراض نفسانیہ میں سے ایک مرض ہے یہ ایک ایسا عام مرض ہے کہ جس سے بہت ہی کم لوگ بچے ہوئے ہیں، اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ کوئی جسد انسانی حسد سے خالی نہیں ہے، البتہ کمینہ اسے ظاہر کرتا ہے جبکہ شریف انسان اسے چھپاتا ہے۔ اللہ ہمیں حسد کے تمام بیماریوں سے محفوظ رکھے، ان خیالات کا اظہار فضیلت کی طالبہ سمیہ شفق بنت عبدالرقیب جھنڈانگری نے کی۔
شبانہ رضی الدین نے اپنے خطاب میں کہا: اسلام نے عورت کے بناؤ سنگار کے قواعد متعین کرکے کوئی ظلم نہیں کیا ہے بلکہ اس کے عز و شرف میں اضافہ ہی کیا ہے، اسلام عورت کی تکریم کا قائل ہے، اسے سامان تجارت نہیں قرار دیتا، اس کے جسم اور حسن و جمال کے تحفظ کا خواہاں ہے نہ ہی خواتین کو بے مہابہ پسند کرتا ہے، حسن و جمال کو بازار میں پیش کرانے پر راضی نہیں ہے، عورت کی تکریم اسلام لازمی قرار دیتا ہے اس کی عصمت و عفت کا تحفظ ایک لازمی چیز ہے، ناکہ اس پر ہمیشہ ہوس ناک نگاہیں پڑتی رہیں، غیروں نے اسے شمع محفل بنا کر رکھ دیا ہے، یہ عورت جو کبھی چراغ خانہ تھی، اسلام عورت کو چراغ خانہ دیکھنا چاہتا ہے کہ شمع محفل۔
محترمہ شمس انجم توحیدی، محترمہ ناصحہ توحیدی، محترمہ عالیہ توحیدی، معتمد خطابت رخسانہ عبدالرحمن، محترمہ عفیفہ شکیل، محترمہ قاسمہ توحیدی، ہیڈ نگراں محترمہ سلامہ عبداللہ مدنی اور ان کے ساتھ تمام معلمات نے کئی ہفتہ کی محنت شاقہ کے بعد اس پروگرام کو اختتام تک پہنچایا۔
پروگرام کا آغاز فاطمہ نور محمد، فاطمہ عبدالشکور، ثناء مجیب الرحمن، شہناز مہتاب عالم کے تلاوت کلام پاک سے ہوا، اس کے علاوہ عربی،ہندی ،انگریزی اور نیپالی زبانوں میں بھی طالبات نے خطاب کیا۔
آپ کی راۓ