اردو اکیڈمی نیپال نے کٹھمنڈو میں جشن غالب کو تاریخی حیثیت کا حامل بنا دیا

31 دسمبر, 2018

کٹھمنڈو / کئیر خبر

 اٹھائیس دسمبر 2018   کاٹھمانڈو کے لئے تاریخی اہمیت کا حامل رہا  اردو اکیڈمی نیپال کے ذریعہ  جشن غالب بڑے دھوم دھام سے منایا گیا جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ جس میں کاٹھمانڈو میں موجود اردو ہندی اور نیپالی کے شعراء نے بڑھ چڑھ کر پورے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے حصہ لیا اور اپنے اپنے کلام سے سامعین کو نوازا

پورا پروگرام دو حصوں میں ترتیب دیا گیا تھا  پہلے دور میں مشاعرہ  اور دوسرے دور میں غزل گائیکی کا پروگرام تھا نیپالی گلوکاروں نے غالب کی غزلوں پر جس فن گلوکاری کا مظاہرہ کیا جشن غالب کو تاریخی حیثیت کا حامل بنا دیا

            مشاعرے کے نظامت کی ذمہ داری نیپال کے معروف شاعر سابق  صدر اردو اکیڈمی نیپال جناب ثاقب ہارونی کو سونپی گئی جس کو انہوں نے بخوبی نبھایا

 غالب کی ایک غزل،،                 یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا                    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

کو گنگناتے ہوئے نمودار ہوئے اور چند مصرعے پڑھنے کے بعد باضابطہ طور مشاعرے کو آگے بڑھانے کے لئے مشاعرے کی صدارت کے لئے اردو اکیڈمی نیپال کے صدر جناب ڈاکٹر امتیاز وفا کو مسند صدارت پر افروز ہونے کے لئے دعوت سخن دیا مہمان خصوصی کے طور کالی ووڈ کے اسکرپٹ رائٹرآسمان  اردو، ہندی، نیپالی ادب کے عظیم ستارے فخر نیپال جناب ڈاکٹر چیتن کارکی صاحب نے فرمائی جنہوں نے غالب پر چند منٹوں میں مختصر و نہایت جامع انداز میں روشنی  ڈالی جو انکے کمال فن پر دسترس کو ظاہر کرتی ہے بعدہ باضابطہ مشاعرہ شروع ہونے کے بعد اپنی بیش بہا غزلوں سے سامعین سے ڈھیروں داد و تحسین حاصل کیا

مہمان اعزازی کے طورپر ہندی و نیپالی ادب کی عظیم شخصیت جناب بسنت چودھری ساگر صاحب اسٹیج کی زینت بنے رہے اور اپنے کلام کو پیش کرکے خوب  خوب داد و تحسین حاصل کیا

اس سے پہلے غالبیات پر  کتاب لکھ چکے ریڈیو نیپال میں کام کررہے  فلم ڈائرکٹر  ڈاکٹر پرکاش سیامی کو غالب کی زندگی کی مختلف پہلوؤں پر  روشنی ڈالنے کے لئے دعوت دی گئی جسے انہوں  بخوبی انجام دیا

مشاعرے کا آغاز ناظم مشاعرہ  ثاقب  ہارونی نے بڑے مسحورکن انداز میں آسمان شعرو ادب کے ستاروں کو یکے بعد دیگرے پیش کیا

سب سے پہلے نیپالی و ہندی زبان کی مستندشخصیت وشاعرہ شیتل کادمبنی کو پیش کیا  اور آتے ہی شیتل کادمبنی نے مشاعرے کو عروج بخشنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی انکے اشعار کچھ یوں تھے

کبھی خود وہ دوری مٹائے تو جانیں سمندر ندی میں سمائے تو جانیں

سکینہ خان

جب کبھی خیالوں میں ان سے  ملاقات ہوتی ہے                 میری ذات ہوتی ہے بس ان کی ذات ہوتی ہے

کلیم  انجم

جس کی جاگیر ہی سیاست ہے                 ملک اس کی ہی وراثت ہے

بھولتے ہو تو بھول جاؤ تم              یاد رکھنے کی اپنی عادت ہے     

جمشید انصاری

وہ اپنے ناز و ادا دکھاتے کبھی تو آتے                       اسی طرح پھر ہمیں ستاتے کبھی تو آتے

کبھی جھکڑتے کبھی بگڑتے کبھی اکڑتے                      کبھی ہنساتے کبھی رلاتے کبھی تو آتے

ساجدہ خان

خانہ دل تمہارا ہے  آیا کرو                            گرچلے آؤ تم پھر نہ جایا کرو

میں بھی بن جاؤں اک شوخ چنچل غزل               شوق سے تم مجھے گن گنایا کرو

اظہار الحق مکرانی

وہ جو ملتا ہے سرراہ ادیبوں کی طرح                 ہے عمل اس کا مرے ساتھ رقیبوں کی طرح

ثاقب ہارونی

اے خدائے جہاں جب خدائی بھی دے                     ہاتھ میں دے قلم روشنائی بھی دے

راہ حق سے بھٹک میں نہ جاؤں  کہیں                   کچھ حقیقت سے اب آشنائی بھی دے

ڈاکٹر سید خالد محسن

پڑھا ہے ذوق کو میں نےتو مومن کو بھی سمجھا ہے                                 نتیجہ بس نکالا یہ کہ شاعر ہے تو غالب ہے

کرو وعد وفا محسن  اسے تم بھول جانے کا                                            مگر وعدہ   وفا کرنا تمہیں کس نے سکھایا

بسنت  چودھری ساگر

میں نظر میں ہوں کسی اور کی  مرا  آسرا کوئی اور ہے                     مرے بھیس میں مرے نام سے مجھے جی کوئی اور ہے

جو ملا وہ میرا نصیب ہے میں یہ سچ بتاؤں  مگر کسے                       مری یادوں میں مرے خوابوں میں کوئی اور تھا کوئی اور ہے

ڈاکٹر امتیاز وفا

تمہاری یاد میں ہر رات بھیگ جاتی ہے                              پھر اس میں صبح کی پہلی کرن نہاتی ہے

کسی کے بارے میں ، میں کیسے سوچ سکتا ہوں                  میں کچھ بھی سوچوں تری یاد آ ہی جاتی ہے

آخر میں باجازت صدر مشاعرے کے اختتام کا اعلان چھ بجے کیا گیا لوگ دوسرے دور کے آغاز کو لے کافی اتاولے ہورتھے دوسرے دور کی نظامت پروفیسر ڈاکٹر سنت کمار وسطی صاحب نے فرماتے ہوتے سب پہلے گلوکار استاد من موہن تھپلیا کو غالب کی غزل کے ساتھ پیش  کیا جس کو انہوں نے بخوبی نبھایا  سر  اور الاپ کے ساتھ کمال فن کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا

اسکے بعد سیلیش نے غالب کی اک اور غزل پر اپنی آواز کا جب سحر بکھیرا  تو پورا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا

ملکہ ترنم نیپال  تربھون یونیورسٹی میں موسیقی کی پروفیسر سنگیتا پردھان رانا کی آواز اور باریک سے باریک حرکتوں نے کمال فن پر انکی دسترس کو ثابت کرتا رہا  سامعین نے دل کھول کر تالیوں کے ذریعہ داد و تحسین سے نوازا

سورج کمار تھاپا ِ ِ،کرن کمار سریسٹھ،  ششیل کمار سریٹھ وغیرہ نے بھی غالب کی غزلوں پر اپنے کمال فن کا مظاہر ہ کیا اور خوب داد و تحسین حاصل کیا

سب سے آخر میں اردو اکیڈمی نیپال کی طرف سے تمام شعراء و شاعرات اور گلوکاروں کو حرف تحسین (ٹوکن آف لب) سے نوازکر ہمت افزائی فرمائی اور مشارکین کی خدمات کو سراہا

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter