یمن کے وسطی شہر ذمار میں مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ حوثی ملیشیا نے ذمار یونیورسٹی کے کیمپس کی اراضی کا ایک حصہ علاحدہ کر لیا ہے تا کہ محاذوں پر مارے جانے والے جنگجو ارکان کے لیے ایک نیا قبرستان بنایا جا سکے۔
ذرائع نے باور کرایا ہے کہ حوثیوں کی جانب سے مقرر کردہ ذمار صوبے کے گورنر محمد حسین المقدشی نے صوبے کے محکمہ اوقاف کو ہدایت دی ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر نئے قبرستان کا افتتاح کیا جائے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حوثیوں کی مشینریز نے قبرستان
کی حدود پر باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ آئندہ چند گھنٹوں کے اندر یہ قبرستان حوثیوں کے ارکان کی لاشوں کو وصول کرنے کے واسطے تیار ہو گا جو روزانہ ذمار ہسپتال کے مردہ خانوں میں پہنچائی جاتی ہیں۔
سال 2014 میں آئینی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد چار سالوں کے دوران حوثی ملیشیا کی جانب سے کھولے جانے والے قبرستانوں کی صحیح تعداد کے حوالے سے اعداد و شمار موجود نہیں۔ تاہم حوثی جماعت کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ دارالحکومت صنعاء کے علاوہ صعدہ، عمران، ذمار، حجہ، المحویت اور اِب صوبوں میں حوثیوں کی جانب سے قریبا 70 نئے قبرستان تیار کیے جا چکے ہیں۔
حوثی ملیشیا نے لبنانی تنظیم حزب اللہ کے مذہبی پروپیگنڈے کی طرز پر اپنے مقتول ارکان کے قبرستانوں کو (روضۃ الشہداء) کا نام دیا ہے۔ اسی طرح حوثی ملیشیا نے میڈیا میں اپنے مقتول ارکان کی تصاویر اور نام نشر کرنے کے حوالے سے بھی حزب اللہ کا طریقہ ہی اپنا رکھا ہے۔
حوثیوں کے قریبی ایک قبائلی رہ نما نے اس ملیشیا کے دور میں قبرستانوں میں اضافے کو یمنی نوجوانوں اور بچوں کا قتل عام قرار دیا۔ ان کو حوثی ملیشیا نے مسلک، فرقہ واریت اور نسل پرستی پر مبنی ایسی جنگ میں جھونک ڈالا جس کا اقتدار کی بھوک کے جنون کے سوا کسی چیز سے تعلق نہیں۔
آپ کی راۓ