(جامعہ ملیہ کی اس زخمی طالبہ کے نام )
آخرش یہ کیا ہے ؟
تصویریں دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں ہیں ۔ آخرش یہ کیا ہے ؟
سرخ پرچم کی اڑانوں میں ضم ہو گئیں ہیں ۔ آخرش یہ کیا ہے؟
بنت _حوا کے زخمی ہاتھوں میں لہو کے نشان دیکھے ۔ آہ !!
ستم کی لاٹھی ، کلاشنکوفوں کی انی پر ایقان دیکھے ۔ آہ !!
مگر یہ حوصلہ نہ تھمے گا ۔ اے کاروان_چراغ_آرزو ، فروزاں !
ترے ہاتھوں میں جو لہو ہے ٬ تجھے حنا کی کیا ضرورت ہے ۔
تری ان فگار انگلیوں میں آبجو ہے ، جمنا کی کیا ضرورت ہے۔
ترے جذبوں سے موج گنگا بھی سرخرو ہے۔ حو صلہ رکھ !
آہ ! ترا ایثار اس قوم کی عزت و آبرو ہے ۔ حوصلہ رکھ !
اے حکم رانوں! تمہارے خوابیدہ چراغ بجھیں گے۔ آخرش بجھیں گے
جبر و استبداد بھی جھکے گا ۔تمہارے ایواں لرز اٹھیں گے ۔ لرز اٹھیں گے
کالے قانون ، بھگوا جھنڈے سرنگوں ہوں گے، اعتماد بھی اٹھے گا
شور اٹھے گا جم غفیران کا ، سر بخوں ہوں گے ، اعتقاد بھی اٹھے گا
کبر شدادیت ، غرور _ فرعونیت خاک بستہ جھکے گا ۔ سن لو
کنار جمنا نوید صبح کی جاں فزا کرنوں سے جگمگا اٹھے گا ۔ سن لو
یہ روشنی کے سفیر ساحل تک ہی آ کر دم لیں گے ۔ نہ رکیں گے
یہ تندی ء و تلاطم نہ رکے گا جو کاروان جنوں اٹھیں گے۔ نہ رکیں گے
سر پہ اپنے کفن لپیٹے صف شکن آرہے ہیں ۔ انقلاب لارہے ہیں
حق و انصاف کی مشعل جو آج بجھ گئی تو کبھی نہ جل سکے گی۔ سن لو !
ایک ہو تو توڑ دو سلاسل ، جو یہ ساعت گئی تو نہ آسکے گی ۔ سن لو !
ہر اک کشتہ دلوں سے پوچھو ! یہ دور تیرہ شبی نہیں تو کیا ہے ؟
اے اہوان دشت حجاز ! تری اذاں میں سرگشتگی نہیں تو کیا ہے ؟
یہ سنگ و تیشہ ،کلاشنکوفیں ، لہو کی دھاری ، کشتگی نہیں تو کیا ہے؟
یہ ستم کشندے ، ضرر پسندے ، بھگوا جھنڈے الجھ رہے ہیں ، دیکھتا ہوں
ہوا و خواہش کے گزید بندے ،سرخ و خونیں ، عجب کشندے الجھ رہے ہیں ، دیکھتا ہوں
ہر اک طرف سے بلند ہوتی صدائیں اب سرخ انقلاب چاہتی ہیں
لرز رہی ہیں دریدہ شمعوں کی پھڑ پھڑاتی لویں ، احتساب چاہتی ہیں
بھڑک اٹھیں گے شعلے، پھڑک اٹھیں گے، دہک اٹھیں گے ، خرمن آزردہ ہے
بچا لو گلشن ، روش روش پہ سسک رہے ہیں گل ، کلی کلی فسردہ ہے
یہ لہو نہیں ہیں تری عظمتوں کا نشان _افتخار ہے ۔ غمیں نہ ہو !
قطرہ قطرہ جو ملت پہ ضو فشاں ہے ۔ ترا ایثار ہے ۔ غمیں نہ ہو !
یقین جانو ! اے حکمرانو ! تہمارے ایواں کی دیواریں لرز رہی ہیں ۔
صدا پہ قدغن ، زباں پہ پہرے ، مگر دلوں میں آتش بھڑک رہی ہیں
سن لو یہ قوم کی بیٹی ہے !! لہو سے جس کی انگلیاں فگار ہیں
کل کی آہٹ ہے ، اک سویرا ہے ، یہ تو دستکوں کا نشان کار ہیں
محمد مرسلین یورش
آپ کی راۓ