جب کوئی دوپہر انگڑائی لے گی

محمد ہاشم خان

10 اپریل, 2020

ای ایم فوسٹر اپنے ناول ’اَ روم وتھ اَ ویو‘  میں لکھتا ہے’’کوئی نفاست کے لئے اٹلی نہیں آتا، زندگی کے لئے آتا ہے۔ بون جورنو بون جورنو(صبح بخیر)۔‘‘ ناول میں مرکزی کردار مِس لوسی ہنی چرچ کو شکایت ہوتی ہے کہ اسے کمرۂ موعود نہیں دیا گیا ہے جس کی کھڑکی دریائے آرنو کی طرف کھلتی ہے بلکہ جو کمرہ دیا گیا ہے اس کی کھڑکی ایک بے رنگ صحن کی طرف کھلتی ہے جو مِس لوسی کی نگاہ میں ایک بے کیف زندگی کا اشاریہ ہے۔ اسی اٹلی میں جہاں لوگ نفاست کی تلاش میں نہیں بلکہ زندگی کو زندہ، حسن کو حسین، لمحوں کو امر اور وقت کو جذب کرنے آتے تھے نیز مناظر فطرت سے حیات کی ملاحت، جمال کی نزاکت، مذاق کی سطوت اور شرار کی طراوت کشید کرتے تھے، اب کوئی بہشت نہیں جی رہا ہے، اب کوئی صبح بخیر نہیں ہوتی،کوئی مست نیم دوپہر انگڑائی نہیں لیتی اور کوئی سرمئی شام بادہ آشام نہیں ہوتی، امید کی کھڑکیاں اب جب کھلیں گی تب کھلیں گی، فی الحال تو’بون جورنو‘ کہنے والوں سے کہہ دیا گیا ہے کہ آپ دیوار سے باتیں کریں،کھڑکیوں سے سرگوشیاں کریں یا چھت کو وسعت گردوں سمجھ کر کہکشاں کی مالا کو ’دانہ دانہ شمار کریں‘ جو چاہیں کریں، صبح اندر نہیں آئے گی، رات باہر نہیں جائے گی، گردشِ لیل و نہار کو سوانیزے پر ایستادہ کردیا گیا ہے۔ وقت کو موت کے سپرد کردیا گیا ہے، موت غیر مرئی وائرس کی شکل میں فضائے بسیط و بیکراں میں تحلیل ہوگئی ہے، ہر سو موت کا مہیب سایہ پھیل گیا ہے۔
میرے گھر کی کھڑکیاں فوسٹر کی اطالوی کھڑکیوں سے قدرے مختلف ہیں، یہ کسی مثل بہشت براعظم کے کسی خوبصورت ثقافتی و اسقفی شہر کی کھڑکیاں نہیں ہیں، یہ دریائے آرنو کی طرف بھی نہیں کھلتی ہیں، یہ ایک ارب پچیس کروڑ آبادی کی سڑاند و بساند والے ملک ہندوستان کے ایک مکدر مضافات کی کھڑکیاں ہیں، سامنے ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جسے قدرت نے بطور میخ گاڑ دیا ہے کہ کہیں ساحل بہہ کر گھر تک نہ آجائے۔ پہاڑ کے نشیب میں میدانی علاقہ ہے، کچھ سال قبل تک سبزہ زار تھا، خودرو برگ و بار تھے، موسم برشگال میں اس کے شباب کی طرفگی بانوئے حسن کی دوشیزگی کے مثل تھی۔اب وہاں ایک تہائی حصے میں غیرقانونی عمارتیں یوں ٹیڑھی میڑھی کھڑی ہیں جیسے کوئی عورت ادرک کی طرح پھیل کر سوکھ جائے یا بعد از آبروریزی کسی گل بدن کو بے پیرہن پھینک دیا جائے، حسن فطرت کے ساتھ یہ بدترین مزاق تھا، ایک تہائی حصے کو کباڑیوں نے کباڑخانے بنا کر اس کا کباڑہ کردیا ہے۔اب جو چھوٹا سا حصہ بچا ہوا اور جو میری کھڑکی سے مزید چھوٹا نظر آرہا ہے وہ بازیچۂ اطفال ہے۔ اب وہاں بچے نظر نہیں آتے۔ صبح ہو، دوپہر یا شام، جب بھی کھڑکی کے پاس کھڑا ہوتا ہوں، منڈیر پر بیٹھا کوا کائیں کائیں کرکے بھاگ جاتا ہے، پیچھے ایک آسیب چھوڑ کر،ویرانی کا، خوف کا، موت کا آسیب۔فاختاوں نے تینوں کھڑکیوں کے چھجوں پر گھونسلے بنا رکھے تھے، صبح کاذب یا فجر کی اذان و مابعد کے وقت ان کی آواز نیند میں خلل پیدا کرتی تھی، کئی بار ان کو بھگانے کی کوشش کی، اب یہ سطور لکھتے وقت خیال آرہا ہے کہ عرصے سے ان کی آواز سنائی نہیں دی ہے۔ میدان میں بے حال و بے فکر بچے، منڈیر پر کوے اور گھونسلوں میں فاختائیں نہیں ہیں۔ تو کیا واقعی نہیں ہیں؟ یا میرا خوف میرے وہم اور وہم یقین پر حاوی ہو گیا ہے؟ کھڑکیاں فوسٹر والی نہیں ہیں، لیکن ہیں تو سہی، دریائے آرنو کا دلکش لینڈاسکیپ نہیں دیکھ سکتا، لیکن دھول دھپے سے اٹے پٹے، غل گپاڑہ مچاتے ہوئے بچوں، ویرانی کی یاد دلانے والے کووں اور پیش از ’عذاب‘ گھونسلے خالی کردینے والی فاختاؤں کو تو دیکھ سکتا ہوں لیکن فضا میں کثافت، تعفن میں دبازت اور ہوا میں گھٹن کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔
یہ میدان کب تک ویران رہے گا اور جب کبھی آباد ہوگا تو کیا بچے وہی ہوں گے، کچھ کہنا مشکل ہے، کچھ کہنا مشکل ہے کہ بات صرف بازیچہ اطفال کے آباد ہونے کی نہیں میری اپنی کھڑکیوں کی بھی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جب یہ قیامت خیز سانحہ اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا تب تک دنیا میں کتنی کرسیاں خالی ہوجائیں گی، کتنے در ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں گے اور کتنی کھڑکیاں یوں ہی نیم وا رہ جائیں گی کہ پردے کے پیچھے آسیب کے سناٹے پھٹپھٹاتے رہیں گے اور کوئی مانوس ہاتھ تھپتھپانے والا نہیں ہوگا۔ دنیا بدل جائے گی، یقیناً پہلے جیسی نہیں رہے گی لیکن پہلے سے بہتر بھی نہیں ہوگی۔ کرہ ارض صاف و شفاف ہوجائے گا۔ نیلگوں آسمان کی وسعت میں تارے کچھ زیادہ نیر و تاباں نظر آئیں گے، ممکن ہے دو پانچ تارے زیادہ نظر آئیں۔ عالمی حدت اور فضائی آلودگی کم ہوجائے گی، گلیشئر کے پگھلنے کی رفتار سست ہوجائے گی، ڈائی آکسائڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں ساٹھ فیصد کمی آجائے گی، ہوا کی کوالٹی بہتر ہوگی، دمہ، فالج، عارضہ قلب اور پھیپھڑوں کی بیماری کا خطرہ کم ہو جائے گا۔ من جملہ کرہ ارض کی کسی حد تک مرمت ہوجائے گی، سب کچھ ہوجائے گا، لیکن یہ سب عارضی طور پر ہوگا، دنیا پہلے سے زیادہ خراب اور یک قطبی ہوجائے گی کہ ہم نے جس وبا کو امیروں کے عدوان کا ردعمل قرار دیتے ہوئے عذاب کہنا شروع کردیا تھا اس نے اب غریبوں کو ایندھن بنانا شروع کردیا ہے، جس وبا سے ہم نے یہ امید وابستہ کی تھی کہ یہ افراط و تفریط کو برابر کردے گی وہ اندھی اور بہری ہوگئی ہے۔ لاک ڈاون میں غذائی اجناس کا سارا کچرا ہم نے صاف کردیا ہے، اگر سردخانوں میں کچھ ذخائر رہ گئے ہیں تو وہ بھی جلد ہی صاف ہوجائیں گے۔
فی الحال فطرت کی سانسیں بحال ہوگئی ہیں، اسے کھانسی، بخار نہیں ہے لیکن عالمی کساد بازاری کے ساتھ ڈارون کے بقائے اصلح کا دور شروع ہوچکا ہے، جو زیادہ فٹ ہوگا وہی زندہ رہے گا۔ غریب بیماری سے بھی مرے گا اور بھکمری سے بھی۔ اصل جنگ تو کورونا کے بعد شروع ہوگی جو خالص معاشی ہوگی۔ امیر ہر حال میں زیادہ فٹ ہے اور آنے والے دنوں میں مزید فٹ ہوگا کہ یہ ’فٹنس‘ اسے معاشی استحکام نے بخشا ہے۔ سانس بہ سانس مرنے والا مزودر مزید سستا ہوجائے گا کہ فروی سے مارچ تک ۳۰ملین ہنریافتہ ملازم بے روزگار ہوچکے ہیں۔ حکومت سے انصاف کی کوئی امید نہیں کرسکتے کہ وہ حق و انصاف نہیں بلکہ ’طاقتور کمزور سے بہتر ہے‘ کے اصول پر پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔ اور ایسی حکومت سے تو کوئی امید نہیں کرسکتے جس نے عوام کو ’ہیلپ یورسیلف‘ کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔ متاثرہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے گھریلو مجموعی پیداوار کا ۱۰ تا ۲۰ فیصد عوام کی امداد کے لئے جھونک دیا ہے اور ہمارا وزیراعظم ’امریکہ فرسٹ‘ کا پلے کارڈ لے کر گھوم رہا ہے۔
یہ وبا ووہان میں یقیناً کسی غریب سے شروع ہوئی ہوگی اور واپس غریبوں میں لوٹ آئی ہے۔ میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ جب یہ وبا گزر جائے گی، رمضان، عید اور دوسرے ایام سرک جائیں گے، جب واپس کوئی نیم مست دوپہر انگڑائی لے گی، کوئی نسیم سرگوشی کرے گی تو ہم میں سے کتنے لوگ اس خوف سے باہر نکل سکیں گے، خالی کرسیوں ،ادھ کھلے دروازوں اور نیم وا دریچوں کے بارے میں سوچیں گے جہاں کبھی زندگی رہی ہوگی اور جو اپنے آباد کاروں کے لمس، آہٹ اور سرگوشی کے منتظر ہوں گے اور وہ کبھی نہیں آئیں گے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter