مصنف اور تاریخ دان یوال نوحا ہریری کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران صحت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست کا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج جو فیصلے ہم کر رہے ہیں اس کے اثرات آنے والے برسوں میں ہماری زندگیوں پر پڑیں گے۔
اسرائیل سے تعلق رکھنے والے مصنف اور تاریخ دان جو ‘سیپینز: اے بریف ہسٹری آف مین کائنڈ’ کے عنوان سے انسانی تاریخ پر لکھی گئی کتاب کے مصنف بھی ہیں کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے جو فیصلے آج کیے جا رہے ہیں اس کے اثرات آنے والے کئی سالوں تک ہماری زندگیوں پر پڑیں گے۔
اس وبا سے نکلنے کے بعد کسی طرح کا معاشرہ جنم لے گا؟ کیا اقوام عالم زیادہ متحد ہو جائیں گی یا اور ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گی؟ کیا شہریوں کی نگرانی کے طریقے اور پولیس کا نظام ان کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جائے گا یا ان پر جبر کے لیے؟
بی بی سی ٹی وی کے پروگرام ‘نیوز آور’ میں بات کرتے ہوئے ہریری نے کہا کہ ’یہ بحران ہمیں بڑے فیصلے بڑی جلدی میں کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن ہمارے پاس ’آپشنز‘ یا مختلف راستے ہیں۔‘
’سیاسی بحران‘
انھوں نے کہا کہ ‘دو عناصر بہت اہم ہیں کہ کیا ہم اس بحران کا سامنا بحیثیت قوم تنہا ہو کر کرتے ہیں یا ہم اس کا مقابلے عالمی تعاون اور یکجہتی سے کرتے ہیں۔
’دوئم یہ کہ ملکی سطح پر ہم اس پر قابو پانے کے لیے مطلق العان اور جابرانہ طرز اور سخت نگرانی کے طریقوں سے کرتے ہیں یا سماجی ہم یکجہتی اور شہریوں کو بااختیار بنا کر کرتے ہیں۔‘
ہریری کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے جن سوالات نے جنم لیا ہے وہ سائنسی بھی ہیں اور سیاسی بھی۔
سائنسی سوالات کا تو جواب ڈھونڈنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن سیاسی سوالات پر کیا رد عمل ہونا چاہیے اس بارے میں زیادہ غور نہیں کیا جا رہا۔
ان کے بقول ’انسانیت کے پاس وہ تمام وسائل ہیں جن کی اس وباء سے نمٹنے کے لیے اس کو ضرورت ہے ۔‘
انھوں نے کہا کہ قرون وسطی کے دور میں جب طاعون کی بیماری پھوٹی تھی تو لوگوں کی اموات ہو رہی تھیں لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیوں مر رہے ہیں اور اس بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے۔
چین کے سائنسدانوں نے Sars-CoV-2 کی شناخت کر لی ہے اور اس کی سیکیوئنسنگ بھی کر لی ہے اور بہت سے دوسرے ملک بھی اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔
کووڈ 19 کا ابھی کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے لیکن تحقیق داں اس کی ویکسین بنانے جدید طبی ٹیکنالوجی اور اخترا سے اس میں مصروف عمل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہمیں معلوم ہے ہاتھوں کے دھونے اور سماجی فاصلوں کے احتیاطی طریقے کورونا وائرس کے پھیلنے کو روک سکتے ہیں۔‘
ہریری نے مزید کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا مقابلہ کس سے اور ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی اور مالی وسائل ہیں۔
’سوال یہ ہے کہ ہم ان صلاحیتوں کا استعمال کیسے کرتے ہیں اور بنیادی طور پر یہ ایک سیاسی سوال ہے۔‘
ہریری نے بین الاقوامی جریدے فائنیشنل ٹائمز کو ایک انٹرویو میں کہا کہ دنیا کو درپیش ہنگامی حالت کی بنا پر جن فیصلوں پر پہنچنے سے پہلے بحث و تمہیز اور غور و خوص میں برس ہا برس لگتے اب بڑی سرعت کے ساتھ راتوں رات کیے جا رہے ہیں۔
شہریوں پر نظر رکھنے کی ٹیکنالوجیز بڑی تیزی سے بنائی جا رہی ہیں اور ان کو بغیر مناسب عوامی بحث کے استعمال میں لانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان جدید آلات کے غلط ہاتھوں میں آنے سے ایسی حکومتیں جو اپنے شہریوں کی کڑی نگرانی کرنا چاہتی ہیں وہ ہر شخص کے بارے میں معلومات اکھٹا کر کے ان کی بنیاد پر خفیہ فیصلے کر سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر اسرائیل میں حکومت نے صرف صحت عامہ کے حکام کے بجائے خفیہ اداروں کو ان معلومات تک رسائی دے دی ہے کہ وہ دیکھ سکیں کہ کون سا شخص کس وقت کہاں موجود تھا۔
چین میں جہاں چہروں سے پہچان کرنے کی سب سے جدید ٹیکنالوجی دستیاب ہے وہاں اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگوں پر قرنطینہ کی خلاف ورزیاں کرنے پر جرمانے کیے گئے ہیں۔
جنوبی کوریا میں بھی تجرباتی طور پر یہ کیا گیا ہے لیکن ہریری کی اطلاعات کے مطابق ایسا بڑے شفاف انداز میں کیا گیا ہے۔
قلیل مدت کے لیے شاید اس کا جواز بنتا ہو لیکن ہریری کا کہنا ہے کہ شہریوں کی نگرانی کے ان طریقوں اور آلات کے مستقل استعمال میں بہت سے خطرات ہیں۔
ہریری کا کہنا تھا کہ ‘وہ اس حق میں ہیں کہ حکومتیں صحت عامہ اور معاشی مسائل کے بارے میں سخت اقدامات اٹھائیں لیکن ایسا صرف ان حکومتوں کو کرنے کا حق ہے جو سب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہوں۔’
‘عام حالات میں ایک حکومت اکاون فیصد عوام کی حمایت سے سرکار چلا سکتی ہیں لیکن اس طرح کے غیر معمولی حالات میں آپ کو حقیقتاً ایک نمائندہ حکومت کی ضرورت ہوتی ہے جو سب کا خیال رکھ سکے۔’
حالیہ برس میں وہ حکومتیں جو قومیت اور مقبولیت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں انہوں نے معاشرے میں تقسیم اور تفریق پیدا کر کے انہیں مختلف دھڑوں میں بانٹ دیا ہے اور غیر ملکیوں اور دوسری اقوام کے لیے نفرت کے بیج بوئیں ہیں۔
ہریری نے کہا کہ اس عالمی وباء نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ملکوں اور مختلف معاشرتی گروپ میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا اس مشکل کا سامنا کرتے وقت عدم اتحاد یا تعاون کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بہت سے ملکوں نے اس مشکل سے تنہا نمٹنے کی کوشش کی ہے اور نجی کمپنیوں سے طبی عملہ اور وسائل حاصل کیے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ پر بہت تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے ماسک اور وینٹیلیٹرز حاصل کرنے کے لیے دوسرے ملکوں کے حق کو مار ہے۔
اس طرح کہ خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ امیر ملکوں میں تیار کردہ ویکسین ترقی پذیر اور غریب ملک تک مناسب تعداد میں پہنچ ہی نہ پائے۔ ہریری نے کہا کہ جدید دنیا میں تعاون سے یہ بھی ممکن ہے کہ چین کے سائنسدانوں نے صبح جو سبق سیکھا ہے اس سے شام کو تہران میں کوئی جان بچائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات سب سے زیادہ دانشمندگی کی ہے کہ عالمی سطح پر تعاون کو فروغ دیا جائے اور بیماری سے متاثر ہونے والے تمام ملکوں میں علم اور مالی اور مادی وسائل کی منصفانہ اور ایماندرانہ طریقہ سے تقسیم اور تبادلہ کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ‘آخری مرتبہ کب انسان نے دوسرے سے الگ ہو کر کسی وباء کا مقابلہ کیا تھا اس کے لیے آپ کو پتھر کے دور میں لوٹنا ہو گا۔’
انھوں نے کہا کہ قرون وسطی کے دور میں چودہویں صدی عیسویں میں طاعون پھیلا تھا لہذا قرون وسطی کے دور میں لوٹنے سے ہم نہیں بچ پائیں گے۔’
ہمارے فیصلوں کا جو بھی نتیجہ نکلے ہریری کو یقین ہے کہ انسان ایک معاشرتی جانور کے ناطے باقی رہے اور بدلے گا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ وائرس انسانی جذبات سے کھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان کی یہ طبیعت ہے کہ وہ بیمار پڑنے والوں سے ہمدردی محسوس کرتا ہے اور ان کے قریب رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ وائرس اس ہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
تاہم ہمیں سماجی فاصلے برقرار رکھنے ہیں اور اپنے دل سے نہیں بلکہ دماغ سے کام لینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے لیے یہ بہت مشکل ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں جب یہ وباء دم توڑ دے گی تو انسان کو معاشرتی رشتوں کا اور زیادہ احساس ہو گا اور انسانی مزاج میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی۔
آپ کی راۓ