مسلم معاشرہ میں مسجد کی حیثیت روح کی سی ہے۔ اس کے بغیر معاشرہ میں زندگی باقی نہیں رہ سکتی ہے۔ مسجد کے بغیر کسی مسلم بستی کا تصور محال ہے۔ مسجد کی عمارتیں اس بستی میں ایمان اور اسلام کا پتا دیتی ہیں۔ مساجد مرکزی ادارہ یا پاور ہاؤس ہیں، جن سے مسلم معاشرہ کے ہر فرد کو رہنمائی اور قوت ملتی ہے۔ مساجد ہی کی وجہ سے مسلم بستیوں کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام مساجد بیت اللہ الحرام یعنی خانۂ کعبہ کی شاخیں ہیں۔ اسی لیے بجا طور پر انہیں اللہ کا گھر کہا جاتا ہے۔ مساجد اتحاد امت کی علامت ہیں جو دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک قبلہ سے جوڑتی ہیں اور ان کا سمت سفر متعین کرتی ہیں۔ یہ امت کو ایک مشن اور ایک مقصد سے وابستہ رکھتی ہیں اور مسلمانوں کو مسلمان بناتی ہیں ۔ اہل ایمان کو دین کا شعور بخشتی ہیں، ان کے ایمان کو نکھارتی ہیں، دکھ سکھ، خوشی وغم، خوشحالی وتنگ دستی، ایام ِ مسرت اور آزمائش کے لمحات غرض ہر وقت راہِ حق پر استقامت کا حوصلہ بخشتی ہیں۔ یہی مساجد ہیں جو شیاطین کی چالوں کو ناکام بناتی ہیں۔ انہی کے منبروں سے شکوک وشبہات، غلط فہمیوں ، بدگمانیوں، جہالتوں وضلالتوں اور شرک و بد عات کی حقیقت واشگاف کی جاتی ہیں اور مسلمانوں کو روشن اور مدلل شریعت پر چلنا آسان بنایا جاتا ہے۔ یہیں سے اخلاص وعمل ، نیکی اورخیر کے کاموں پر ابھاراجاتا ہے اور دنیاوآخرت کو سنوارا جاتا ہے۔ زندگی وموت، قبر وحشر اور جنت و جہنم کی حقیقت بیان کی جاتی ہے اور آخرت کو کامیاب بنانے کی نہ صرف تلقین کی جاتی ہے بلکہ ایمان ویقین کے ساتھ راہِ آخرت پر چلنے کے لیے اذہان وقلوب کو آمادہ کیا جاتا ہے اور اندرونِ قلب میں احساس ذمہ داری اور قوت فکروعمل پیدا کی جاتی ہے۔
احادیث میں مساجد کو اللہ کا گھر اور جنت کا باغ بتایا گیا ہے۔ یہ جھوٹ وبہتان، سود ورشوت، بغض ونفرت،شرک وکفر، غیبت و چغلی، بدگمانی وریا کاری ، شراب نوشی، باہم عداوت وتجسس اور کینہ وحسد کے خاتمہ کا اعلان کرتی ہیں۔اس کے بجائے ایمان واخلاص، صدق وصفا، اخوت،خیرخواہی و غمگساری، عدل ومساوات اورمواسات کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہیں۔ غرض مساجد مسلم معاشرہ کو نقصان پہنچانے والے ہر چور دروازے کو بند کرتی ہیں اور خیر وبھلائی کے تمام راستوں کو کھول دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پوری مسلم تاریخ میں مسلمانوں نے مساجد کو ہمیشہ آباد رکھا اور جان ومال کی قربانیاں دے کر ان کی حفاظت کی ہے۔ایک مشترکہ اور ملی وسماجی ادارہ کی حیثیت میں مساجد کے حقوق ہمیشہ ادا کیا ہے۔ آج مسلم معاشرہ میں بہت سی کمزوریاں در آئی ہیں، ان میں اہم ترین بات یہ ہے کہ مسلمان سماجی مسائل سے لاپرواہی برت رہے ہیں۔ مساجد و مدارس کے معاملات، اصلاح و دعوت کے امور، تنظیمی و دعوتی مقاصد اور ان کو درپیش مسائل اور دیگر ملی تقاضوں اورسرگرمیوں سے تقریبا الک تھلگ ہو کر رہ گئے ہیں۔ گاؤں سماج میں بمشکل تمام اکا دکا افراد ایسے ملتے ہیں جو ملی مسائل کا شعور بھی رکھتےہوں اور ان کے لیے اپنا وقت ، مال اور دیگر صلاحیتیں بھی لگا تے ہوں۔
ان ملی امور اور سماجی مسائل میں سرِ فہرست مساجدکے حقوق ہیں۔ جن کی ادائی میں بھی مسلمان حد درجہ کوتاہ ہو گئے ہیں۔ آئندہ سطور میں مسلم معاشرہ پر عائدمساجد کے حقوق بیان کیے جارہے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے قارئین کو رہنمائی ملے گی ، ان کے دلوں میں آمادگی پیدا ہوگی، مساجد کی قدر وقیمت کو وہ جان سکیں گے اوران کے امور و معاملات میں دلچسپی لیں گے اور ان کے حقوق کما حقہ ادا کرسکیں گے۔
1- مسجد کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا:
صفائی ستھرائی ہماری تہذیب میں شامل ہے۔ پاکی و نظافت ایمان کا حصہ ہے۔ نماز سے قبل صفائی ستھرائی ، غسل و وضو اور پاکیزہ و ساتر لباس کے اہتمام کی بات کہی گئی ہے۔ وضو کی تفصیلات دیکھیے: ہتھیلی دھونا، کلی کرنا، ناک صاف کرنا، چہرہ اور ہاتھ دھونا، انگلیوں میں خلال کرنا، کان اور سر کا مسح کرنا، پیردھونا یعنی استعمال میں آنےولالے اور کھلے ہوئے تمام اعضاء کو دھونا یا مسح کرنا، اس قدر نظافت و طہارت کے بعد نماز ادا کی جائے گی۔ اس کےلیے ظاہر ہے کہ جائے نماز بھی صاف ستھرا ہوناچاہیے۔ مساجد کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھنا نمازیوں پر فرض ہے۔ مسجد کا فرش، چٹائیاں اور مصلے ، منبر ومحراب، دروازے اور کھڑکیاں، برآمدے اور ستون، دراز، ریک اور الماریاں اورمائک سےجڑی تارمشینیں غرض تمام چیزیں با لکل صاف ستھری رکھی جائیں۔ مساجد اللہ کا گھر ہیں۔ انہیں اللہ کی عبادت کی ادائی کے لیے بنا یا گیا ہےاور عبادات میں خشوع مطلوب ہے۔ اس لیے نفاست اس کےچپہ چپہ سے ظاہر ہونا چاہیے اور ایسی کوئی بھی چیز یا سرگرمی جو خشوع میں مانع ہو ،مساجد میں نہیں ہونا چاہیے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں مسلمان مساجد کی صفائی پر دھیان نہیں دیتے ہیں۔ مسجد بڑی ہے تومحض ایک یا دو صف کی صفائی کرکے نماز ادا کرتے رہتے ہیں۔ چٹائیوں میں دھول ، منبر ومحراب میں جالے، کھڑکیوں او ر الماریوں میں گرد وغبار، برآمدے اور دروازے پر کیڑے مکوڑوں اور حیوانات کی غلاظتیں اور جابجا مکڑی کے جالے پڑے ہوتے ہیں اور کوئی ان کی صفائی پر دھیان نہیں دیتا ہے۔ بڑی مسجدوں میں وضو خانے اور طہارت خانے اس قدر گندے اوربد بودار ہوتے ہیں کہ استعمال کے قابل ہی نہیں ہوتے یاطبیعت پر گراں ہوتے ہیں۔ جہاں سے ایمان و اسلام اور طہارت و نظافت کا روزانہ درس دیا جاتا ہے، اسی مرکز یا مسجد کی یہ حالت کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسی مسجدوں میں جانا ہوا، جہاں چٹائیاں بوسیدہ، الماریاں گرد آلود، منبر ومحراب اور درو دیوار پر مکڑی کے جالے تھے۔ دیکھ کر بستی والوں پر رونا آیا اور ان کی بے حسی پر سخت تعجب ہوا۔ مساجد کا حق ہے کہ مسلمان ان کا پاس و لحاظ رکھیں،ان کو اپنا نہیں بلکہ اللہ کاگھر سمجھ کر مکمل صاف ستھر ا رکھیں اور نفاست ونظافت کا اعلیٰ معیار قائم کریں۔
2- پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام:
نمازوں کی ادائی کے لیے ہی مساجد بنائی جاتی ہیں۔ مساجد کو آباد رکھنےکا اول ذریعہ پنج وقتہ نمازوں کی باجماعت ادائی ہے۔ اسی سے فرد اور بستی کے مسلمان ہونے کا علم ہوتا ہے۔ مساجد میں آنے جانے والے افراد ہی اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے حق میں ایمان و اسلام کی گواہی دی جائے۔ اگر مساجد میں نمازوں کا اہتما م نہ ہو تو ان کی تعمیر کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ یا اس میں جس قدر کمزوری ہوگی مقاصد بھی اسی قدر کم حاصل ہو ں گے ۔ آج حال یہ ہے کہ مسلمان بڑی بڑی مسجدیں بنا تو لیتے ہیں لیکن ان کو آباد نہیں رکھتے۔ عام طور پر مساجد ہفتہ بھر خالی رہتی ہیں اور صرف جمعہ کو ہی پوری طرح آباد ہوپاتی ہیں۔ مساجد کا حق ہے کہ مسلمان ان کو آ باد رکھیں،پنج وقتہ نمازوں کا مکمل اہتما م کریں، اقامتِ صلوۃ کے آداب بجا لائیں اور اجتماعی طور پر پورے گاؤں اور ملک میں نماز کا ماحول قائم کریں۔اس کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کریں اور شوق دلائیں۔ مساجد بنا لینا آسان ہے البتہ ان کو آباد رکھنا مشکل کام ہے۔ جب کہ مساجد کا بہت بنیادی حق ہے کہ انہیں ہمیشہ سجدوں سے آباد رکھا جائے۔ کسی نے اسی صورت حال کی ترجمانی کرتے ہوئےکہا تھا:
مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
3- عالی شان اور کشادہ بنانا:
مساجد اللہ کا گھر ہیں۔ اس لیے ان کی تعمیر میں خاطر خواہ سرمایہ لگایا جائے۔مساجد کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب مسلمانوں نے مساجد کی تعمیر شروع کی تو تعمیرات کا فن وجود میں آگیا اور اس فن کو کافی ترقی ہوئی۔ مساجد فن تعمیرات کا نادر نمونہ ہیں ۔ حرمین ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی متعدد مساجد ہیں جو بے مثال ہیں اور دنیا کے عجائبات کا حصہ ہیں۔ اللہ کی عظمت وکبریائی اور اسلام ومسلمانوں کی عزت وشوکت کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ مساجد کا حق ہے کہ ان کی عمارتیں ان کے شایان شان ہوں۔ خوب صورت، مضبوط ومستحکم، بلند وبالا، عالی شان ، دل کش اور اسلامی ثقافت کا آئینہ دار ہوں۔ان کا بارعب، دلربا اور روح پرور منظر بستی والوں کی دینی غیرت، نماز کی اقامت، تعلق با للہ اور انفاق فی سبیل اللہ کی واضح علامت ہوتی ہے۔ مسجد ایسی تعمیر کی جائے جو قرب وجوار میں تعمیرات کے لحاظ سے نمونہ ہو اورپوری بستی میں سب سے ٹھوس، خوبصورت اور عالی شان گھر اللہ کا گھر یعنی مسجد ہی ہو۔ مسجد کے دروازے، مینارے، منبر ومحراب، کھڑکیاں، لائٹ اور پنکھے گاؤں والوں کی غربت اور بے توجہی کی تصویر نہ پیش کرتے ہوں بلکہ مسجد کے درو دیوار اور اس کی پوری عمارت ایک دل کش اور عالی شان منظر پیش کررہی ہو جو ہر نووارد کے دل کو موہ لے اور اس کے دل میں مساجد کا احترام پیدا کردے۔
مسجد کی تعمیر کرنا اہل بستی پر فرض ہے اور اس کی فضیلت میں وہ حدیث کافی ہے کہ جس نے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔نماز فرض ہے تو نماز کے لیے مسجد بنانا اور اس کے لیے تمام ضروریات کا انتظام کرنا بھی فرض ہے۔ لیکن افسوس ہمارے یہاں یہ عجیب صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ لوگ مساجد کی تعمیر کے لیے اپنا قیمتی سرمایہ صرف کرنا نہیں چاہتے اور باہر کے مخیرین کی مدد کا برسوں انتظار کرتے رہتے ہیں ۔ گاؤں کا غریب سے غریب آدمی اپنا گھر بنالیتا ہے لیکن اسی گاؤں میں مسجد کے لیے لوگ بیرون ملک بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔
ایک کوتاہی یہ دیکھی جارہی ہے کہ بعض مخیرین مسجد کا فنڈ دیتے وقت صرف ایک منارہ کا ہی بجٹ منظور کرتے ہیں۔ان کے خرچ سے ایک منارہ والی مسجد بنالی جاتی ہے اور برسوں تک وہ ایک ہی منارہ کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔ بستی والوں کو اس بات کی توفیق نہیں ہوتی کہ کم از کم اپنے مال سے باقی منارہ کی تعمیر کرلی جائے۔ جب کہ گاؤں میں کسی کا مکان اس طرح ادھورا اور بدنما زیادہ دنوں تک نہیں رہتا ہے، بلکہ اسے جلد ازجلد مکمل کرلیا جاتا ہے۔فقہی تفصیلات میں جائے بغیر آپ ذرا غور کریں کیا یہ مساجد کے شایان شان ہے؟ اور یا کوئی انصاف کی بات ہے؟؟ حیرت ہوتی ہے کہ بعض حضرات انتہائی بے شرمی کے ساتھ ایک منارہ مسجد کو توحید کی علامت بتاتے ہیں۔ اللہ کے گھر کے ساتھ اس درجہ کھلواڑ!!
مساجد اس قدر کشادہ تعمیر کی جائیں کہ بستی کے تمام مسلمان مردو خواتین آسانی کے ساتھ نماز ادا کرسکیں۔ پانی کا انتظام وافر ہو، طہارت اور وضو خانے ضرورت پوری کررہے ہوں، منبر ومحراب ، گنبد ومینارے اور صدردروازے اسلامی شوکت کا مظاہرہ کررہے ہوں اور جمعہ کے دن یا وہ ایام جب گاؤں کے سارے لوگ گاؤں ہی میں ہوں یا بستی میں کوئی تقریب ہو یا کوئی جنازہ یا کوئی اور حادثہ ہوجائے تو اس دن بھی مسجد تنگ نہ ہونے پائے۔
4- مرکزی جگہ پر مساجد کی تعمیر کرنا:
آبادی کے درمیان ایسی مرکزی جگہوں پر مساجد کی تعمیر ہو جہاں آنا جانا اور پنج وقتہ نمازوں میں شرکت کرنا پوری بستی والوں کے لیے آسان ہو ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے توسیع کی پوری گنجائش ہو۔ حسبِ ضرورت انہیں کشادہ اور وسیع کیا جا سکے۔ گاؤں سے باہر، گاؤں کے کسی کنارے پر یا ایسے گاؤں میں جہاں مسلمان آباد نہ ہوں یا کسی ایسی جگہ جہاں لوگوں کا قیام عارضی ہو مساجد تعمیر نہ کی جائیں۔ اسی طرح چھوٹے مدارس میں جہاں اصلا مساجد کی ضرورت نہ ہواور نمازوں کی ادائی مدرسے کے میدان میں ، برآمدے یا کسی ہال میں ممکن ہو تو ایسی جگہوں پر ہال وغیرہ کی ضرورت کے پیشِ نظر مساجد کی تعمیر نہ کی جائے۔ مساجد کی تعمیر نمازوں کے قیام کے لیے ہی ہو ورنہ انہیں آباد رکھنا نا ممکن ہو جائے گا۔ بڑے مدارس جہاں دارالاقامہ کا نظم ہو اور سال بھر بچے یا بچیاں قیام کرتی ہوں، تو ایسے ادارو ں میں مساجد تعمیر کی جاسکتی ہیں۔ البتہ رمضان یا چھٹی کے دیگر ایام میں ایسی مساجد کو بھی آباد رکھنے پر غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایسا ہرگز نہ ہو کہ مساجد کے لیےمشروعات اور فنڈ لیتے رہیں اور ضرورت بے ضرورت ،جا بےجا، آباد اور غیر آباد جگہوں پر مساجد تعمیر کرتے چلے جائیں اور کوئی ان کو آباد رکھنے والا نہ ہواور یہ مساجد نمازوں کے بجائے غلہ رکھنے، مزدوروں کے رہنے سہنے، مویشی باندھنے یا ایسے ہی کسی لایعنی کام میں لایا جائے یا بالکل غیر آباد چھوڑ دیا جائے اور چند سالوں میں وہ کھنڈر ہو کر رہ جائیں۔ آئے دن اس طرح کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں کہ فلاں مسجد بالکل غیر آباد ہے یا اسے نمازوں کے بجائے دوسرے کام میں لایا جارہا ہے۔ اگرکہیں واقعی ایسا ہی ہےتو یہ بڑی لاپرواہی ہے اورایسی مساجد کی تعمیر کرنے والے یا کرانے والے احباب و علماء ثواب کے بجائے گنا ہ کمارہے ہیں۔ ایسا کرنے والے مجرم ہیں اور اللہ کی عطا کردہ امانت میں بد ترین خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
5- جدید وسائل و سہولیات کی فراہمی:
دن بدن ضرورت و آسائش کی نئی نئی چیزیں ایجاد ہورہی ہیں جن کو لوگ اپنی عام زندگی اور روز مرہ کی ضروریات میں بھر پور استعمال کر رہے ہیں۔ گذشتہ چالیس پچاس سالوں میں تعمیرات اور گھر میں استعمال کی چیزوں میں زبردست تبدیلی آئی ہے اور رہائش کے مکانات خواہ وقتی ہوں یا مستقل یکسر بدل گئے ہیں۔ مساجد کا حق ہے کہ ان کو بھی جدید وسائل وضروریات سے لیس رکھاجائے۔ ضرورت بھر ان کی تزئین اور کارآمد اشیاء کے استعمال میں کوئی کمی نہ لائی جائے۔ خوبصورت دروازے، آرام دہ مصلے اور کارپیٹ، قرآن اور دیگر کتابوں کےلیے دیدہ زیب ریک اور بند الماریاں، ڈیجیٹل گھڑیاں، جدید مائک، انورٹر، جدید لائٹ اور پنکھے، غرض تمام ضروری اور جدید وسائل کی فراہمی کے ذریعے مساجد کو آرام دہ ، خوب صورت اور پرسکون بنایا جائے ، جہاں نمازیوں کو ضرورت کی ساری چیزیں میسر ہوں اور مکمل آرام و سکون کے ساتھ وہ نمازادا کرسکیں۔ اسی طرح بڑی آبادیوں یا شہروں کی بڑی مساجد میں ہیٹر، کولر ،اے سی،کیمرے، مریضوں اور معمر حضرات کےلیے جدید طرز کےباتھ روم اور طہارت خانے، گرم اور ٹھنڈا پانی کی سہولت، پینے کا میٹھا پانی، گاڑی پارکنگ کی جگہیں، کشادہ سیڑھیاں اور لائبریری کا بھی انتظام بحسن وخوبی کیا جائے۔ امام و خطیب کا بیان سنانے اور ریکارڈ کرنے کے آلات ہوں ۔ تہ خانے ،بالائی منزلوں اور خواتین نمازیوں کے لیے ڈسپلے اسکرین ہو تاکہ وہ بھی خطیب کے بیان کو پوری یکسوئی کے ساتھ سن سکیں۔اسی طرح فلیکس پرنٹ کی مدد سے عام ہدایات، مساجد کے آداب اور اعلانات بڑے حروف میں پرنٹ شدہ آویزاں کیے جائیں۔ استقبالیہ پوائنٹ ،تعارف اسلام، عام دورس اور دینی اجتماعات کے لیے ضروری اشیاء کا انتظام ہو۔
6- خواتین کے لیے مخصوص مقامات کا انتظام کرنا:
مردوں کی طرح خواتین پر بھی نماز فرض ہے۔ عہد نبوی میں خواتین مساجد جایا کرتی تھیں۔ خلفائے راشدین کے عہد میں اور بعد کے زمانوں میں بھی اس کی پابندی کی جاتی رہی ہے۔ آج بھی اسلامی ممالک میں اس کا عام رواج ہےاور خواتین کے لیے پوری سہولت میسر ہے کہ وہ پنج وقتہ نمازوں کے لیے مسجد جائیں۔ اپنی خاص صفوں میں رہ کر اسی امام کی اقتدا میں نماز ادا کریں جس کی اقتدا میں مرد حضرات اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ خطبۂ جمعہ اور حسبِ سہولت دیگر دینی دروس اور خطابات سے استفادہ کرسکیں۔ سعودی عرب میں رہائش کے دوران بکثرت ایسے لمحات میسر آئے اور مساجد کاحسن انتظام اورروح پرور منظردیکھ کر عظمت رفتہ کی یا د تازہ ہوگئی۔
ملک نیپال میں ہم مسلمان اقلیت میں ضرور ہیں لیکن اس قدر مفلس اور مجبور نہیں ہیں کہ اپنی مساجد کو خواتین کے لئے سازگار نہ بنا سکیں۔ ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ اپنی مساجد میں زبر دست تبدیلی لائیں۔ خواتین کے لیے الگ راستہ ، الگ دروازہ، خاص جائے نماز، خاص سیڑھیاں اور مناسب پرد ے کا نظم کریں۔ خواتین کی سہولت کےلیے مساجد دو منزلہ اور سہ منزلہ بنائی جائیں اور اس کے لیے مردوں اور عام افرادِ امت کی ذہن سازی کی جائے اور ہر پہلو سے خواتین کے لیے تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ بآسانی نمازوں کے لیے مساجد آسکیں۔ ایک ساتھ نمازیں ادا کریں، مردوں کی طرح ہر ہفتہ خطباتِ جمعہ سے مستفید ہوں، اجتماعی زندگی اور ملی وحدت کا شعور اور احساس پید ا کریں۔ خواتین کو حسبِ ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے اور وہ نکلتی بھی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی ہیں۔ کھیتی کھلیان کا کام کرتی ہیں۔ سودا سلف اور دیگر ضروریات کے لیے بازار جاتی ہیں۔ دوا علاج کے لیے ڈاکٹڑوں کے پاس جاتی ہیں تو نمازوں کے لیے پاک صاف ، باوضو اور با پردہ ہوکر نکلنے اور مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے میں آخرکون سی قبا حت ہے؟ خواتین کو مساجد سےروکنا شریعت میں ممنوع ہے اور آج کی طرح انہیں مسجد سےیکسر محروم رکھنا جیسا کہ ہمارے یہاں ہو رہا ہے، دینی اعتبار سے جرم ہےا ور ان کی سراسر حق تلفی ہے۔ مساجد کا حق ہے کہ انہیں مردوں کی طرح عورتیں بھی آباد رکھیں۔ہمارے نیپالی مسلم معاشرہ میں جو بے دینی ہے اوربالخصوص خواتین کے اندر جواعتقادات کی خرابیاں اور توہمات ہیں۔ ہمارے گھروں میں جو رسوم و رواج ، بدعات اور تضادات ہیں۔ اندرونِ خانہ بکھراؤ اور انتشار ہے۔ ساس بہوا ور نند بھاؤج کی مسلسل چپقلس اور باہم زیادتیاں ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ ہم نےخواتین کی وعظ ونصیحت کا معقول انتظام نہیں کیا ہے اور انہیں مسجدوں میں جانے سے روک رکھا ہے۔ اگر وہ برابر خطباتِ جمعہ سے مستفید ہوتیں تو شاید دینی شعور کی بیداری کے سبب صورتِ حال قدرے مختلف ہوتی۔
7- عام فہم خطباتِ جمعہ کا اہتمام کرنا:
نمازِ جمعہ کی جو اہمیت قرآن میں بیان کی گئی ہے، احادیث میں آپﷺ کا جواسوہ بیان ہوا ہے اور خلفائے راشدین کے خطباتِ جمعہ کے جومتون منقول اور محفوظ ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبۂ جمعہ حمد وثنا، درود وسلام، تقویٰ ، یادِ آخرت اور کتاب وسنت کے التزام کی تلقین پر مشتمل ہوناچاہیے۔ خطبہ انتہائی اختصار کے ساتھ عام فہم اور سلیس زبان میں ٹھہر ٹھہر کر پیش کیا جائے تاکہ سامعین پوری طرح سمجھ سکیں اور اس پر عمل پیر اہوسکیں۔ خطبہ حاضرینِ جمعہ کے احوال اور ان کی اصلاح ، تربیت و تزکیہ کے سلسلے میں عملی رہنمائیوں سے عبارت ہو۔ اما م وخطیب متقی ،عالم با عمل اور مقاصدشریعت پر گہری نظر رکھنے والا ہو تاکہ وہ سماج کی صحیح سمت میں اور بر وقت رہنمائی کرسکے۔
ہمارے یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ علمائے کرام عام طور پر خطباتِ جمعہ سے کتراتے ہیں اور جو منبر پر جاتے بھی ہیں تو وہ رٹی رٹائی تقریریں، بے محل ، بے موقع اور بےربط باتیں کرتے ہیں اور بسا اوقات متضاد باتیں کہہ جاتے ہیں۔ بعض جگہوں پر عربی کی پرانی عبارتیں سنادی جاتیں یا فرسودہ تحریریں پڑھی جاتی ہیں جن کو نہ پڑھنے والا سمجھتا ہے اور نہ سننے والے سمجھتے ہیں۔ گویا خطبہ نہیں دیا بس ایک بوجھ اتار دیا، والی کیفیت ہے۔ اہلِ بستی اور حاضرینِ جمعہ کی اصلاح مقصود ہوتی ہی نہیں ہے ۔ نہ اندازِ بیان ناصحانہ ہوتا ہے اور نہ بیان میں کوئی ربط، نتیجہ اور اثرہوتا ہے۔ مساجد کا بنیادی حق ہے کہ خطبہ ٔ جمعہ کے لیے باصلاحیت اور متقی علمائے دین کو ذمہ داری دی جائے۔ بصورتِ دیگر وہ منبر و محراب کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔ منبرِ رسول ﷺ پر ایسے ہی افراد کو لایا جائے جو واقعی علم نبوت کے وارث ہوں اور اس کے تقاضے پوری کرسکیں۔ خطبۂ جمعہ حاضرین کی زبان میں دی جائے۔ اول و آخر میں حمدو ثنا، درود و سلام اور مسنو ن دعائیں عربی میں ہوں لیکن درمیان کی باتیں خالص وعظ و نصیحت کی ہوں۔ جس کے لئےمقامی و علاقائی زبان سے مدد لی جائے ۔اردو، نیپالی یا کسی بھی مقامی زبان میں نصیحت کی باتیں صاف صاف اور ٹھہر ٹھہر کر کی جائیں تاکہ حاضرین پوری بات سمجھ سکیں اور اس کے مطابق اپنی اصلاح کر سکیں۔خطبہ میں سماج میں موجود برائیوں ، درپیش حالات و واقعات اور سماجی و اجتماعی امور اور ملک و ملت کے مسائل کو موضوع ِ گفتگو بنایا جائے تاکہ لوگوں کو عمل کے لئے رہنمائی حاصل ہو سکے۔
8- اصلاح و دعوت کا مرکز بنایا جائے:
مساجد سے اصلاح و دعوت کا عمل تیز کرنا ہوگا۔ گھر گھر بلکہ فرد فرد تک پہنچ کر نماز اور دیگرنیک اعمال پر آمادہ کرنا ہوگا۔ اصلاح ودعوت کے ضمن میں مساجد کی تاریخ روشن ہے۔ مساجد ہمیشہ اصلاح و دعوت کے مراکز رہے ہیں۔ آج بھی عالم ِ اسلام میں اور دیگر متعدد ممالک میں مساجد کی سرگرمیاں لائق تحسین ہیں۔ مساجد مراکزِ اصلاح و ارشاد، دعوتی سنٹر، کلچرل و انفارمیشن سنٹر، خدمتِ خلق غرض ہمہ جہت مقاصد کے تحت بروئے کار لائی جارہی ہیں۔ دنیا کے تمام حساس ممالک میں مساجد کو دعوت و اصلاح کے لئے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ حرمین شریفین میں دسیوں حلقے قائم ہوتے ہیں جہاں سے مختلف زبانوں میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔
ہمارے یہاں اس سلسلے میں زبر دست لاپروائی پائی جاتی ہے۔ نماز کے علاوہ مساجد کا کوئی مصرف نہیں ہے، جب کہ مساجد کا حق ہے کہ ان کو ہر ممکن طریقے سے آباد رکھا جائے، ان سے افرادِ امت کو ہمیشہ وابستہ رکھا جائے اور مساجد کو تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کا مرکز بنا یا جائے۔ خطباتِ جمعہ کے علاوہ نمازوں کے بعد درسِ قرآن، درسِ حدیث، مختصر تذکیر، دینی مناسبات سے خطبات، علمی محاضرے، ہفتہ واری پروگرام، تربیت و تزکیہ کے حلقے، دعوت کی تیاری، تیمارداری،غسل میت اور تجہیز وتدفین کی تربیت، نکاح کی تقریب، ملی و سماجی امور کے لیے میٹنگ جیسی سرگرمیاں بھی مساجد میں انجام دی جائیں۔تعارفِ اسلام پر مشتمل کتابیں بھی مساجد میں رکھی جائیں۔ دعوت اور تعارف کی غرض سے غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں کو بھی مساجد کی زیارت کی دعوت دی جائے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں، باہم دوریاں کم ہوں اور دعوتِ عام کے مواقع پیدا ہوں۔
مساجد اور مدارس سے ہی مسلمان دین سیکھتے ہیں۔ آج مساجد میں یہ سرگرمیاں مفقود ہیں تو مسلمانوں کے اندر سے دین کاصحیح شعور ختم ہوتا چلا گیا ہے، اسلام کی جامعیت ان کے دلوں میں باقی نہ رہی، ایک ایک کر کے اسلامی اخلاق وعادات سے ان کا رشتہ ٹوٹتا چلا گیا، ملتِ اسلامیہ کی عظمت اور دعوتِ دین کی اہمیت و ضرورت کو وہ بھول گئے۔حقیقت میں وہ داعی امت تھے لیکن جہالت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ خود مدعو بن کر دین اسلام سے کوسوں دور چلے گئے ہیں ۔نہ عقیدہ کی سمجھ ہے اور نہ دین کی دوسری اساسیات کو ہی وہ جانتے ہیں۔ یہ کہنا حق بہ جانب ہوگا کہ دین کے بغیر ہی آج کے مسلمان دیندارکہے ہیں۔
9- مساجد کی حفاظت کرنا:
مساجد اسلام کے شعائر اور مقدس مقامات ہیں۔ دین وثقافت کے قلعے ہیں اور اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے مراکز بھی ہیں۔ اس لیے ہمیشہ سے اسلام دشمن طاقتوں نے ان کو نشانہ بنایا ہے اور ان کو نقصان پہنچانے اور ان کی سرگرمیوں کو محدود اور معطل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تعمیر پر بے جا اعتراض کیا ہے اور ان کی اراضی پر بلا ثبوت دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ نمازوں کی ادائیگی میں روکاوٹیں پیدا کرتے رہے ہیں ۔ ان کو غیر آباد کرنے ، نقصان پہنچانے بلکہ منہدم تک کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں ماؤنواز کے ابتدائی ادوار جو کہ ظالمانہ ایام تھے جابجا ایسے ناپاک عزائم کا ظہار کیا گیا تھا۔
اس لیے مساجد کا اولین حق ہے کہ انہیں آباد رکھا جائے اور ان کی حفاظت کی جائے۔ مسلمانوں کی تاریخ رہی ہے کہ جب بھی مساجد کے ساتھ مشکل گھڑی آئی ہے۔ اللہ والوں نےجان دے کر بھی اللہ کے گھر کی حفاظت کی ہے۔ اس ضمن میں ملتِ اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ مسجدوں کو ہمیشہ آباد رکھیں ۔ اگر مسجد آباد ہو تو دشمن کی چالیں عموما کامیاب نہیں ہوتی ہیں اور اللہ کی خاص نصرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ مساجد کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے کہ سرکاری دستاویزات کے لحاظ سے کاغذات مضبوط اور محفوظ رکھے جائیں۔ مساجد کی اراضی ایک فرد کے بجائے کئی اشخاص ،یا مسجد کمیٹی یا نیپال مسجد کونسل یا کسی ملی سوسائٹی کے نام سے پاس کرالی جائیں۔ زمین پر اگر سرکاری ٹیکس عائد ہوتا ہے تو پابندی سے اس کی ادائی ہو۔ بجلی ،پانی یا لینڈ لائن فون بھی مسجد کے نام سے لیا جائے۔ مساجد کی زمینوں پر کسی کا دعویٰ ہو تو اسے نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ کسی ماہر وکیل کی مدد سے اس کی کارروائی کو مکمل کرالیا جائے۔
10- مسجد کمیٹی کا قیام:
ہمارے یہاں نیپالی مسلم معاشرہ میں مساجد کی دیکھ بھال کے لیے بالعموم کوئی رجسٹرڈ کمیٹی نہیں ہوتی ہے۔ کسی ٖضرورت کے تحت کبھی بنائی گئی تو وہ بھی صرف کاغذ تک محدود ہوتی ہے۔ مساجد کے امور دیکھنے کےلیے کوئی فرد ذمہ دار نہیں ہوتا ہے بلکہ انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بعض افراد اپنی ذاتی دلچسپی یا دین پسندی کی بنیاد پر ان کی دیکھ بھال کر لیتے ہیں۔ جب کہ مساجد کی دیکھ ریکھ اور ان کاانتظام وانصرام انتہائی منظم ڈھنگ سے ہونا چاہیے جو ان کے شایانِ شان ہو۔ باضابطہ مسجد کمیٹی کی تشکیل ہو جس میں با شعور افراد ہوں۔ جو مساجد کے ہر معاملہ پر سنجیدگی سے غور وفکر کریں، ان کو آباد رکھنے ، نمازوں، خطباتِ جمعہ اور دینی دروس کو قائم و دائم رکھنے کے لیے فیصلے لیں۔ با صلاحیت امام و خطیب کا انتظام کریں، مساجد کی حفاظت ، مالیات کی حصولیابی اورمستقبل کی پلاننگ کی فکر کریں۔ کسی فرد یا طبقہ کی جانب سے کوئی شرارت یا حملہ ہو تو اس کا بھر پور دفاع کریں اور شایانِ شان جواب دیں۔ مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے کہ ہر کام منظم اور احسن ڈھنگ سے انجام دیں۔ مساجد کی دیکھ ریکھ اور سرپرستی کسی بھیڑ پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ مساجد کی جو اہمیت ہے اور ان کے تحت جوہمہ جہت امور انجام دیے جاتے ہیں اور قیادت کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر ناگزیر ہے کہ با شعور اور مخلص افراد پر مشتمل ایک فعال کمیٹی ہو۔جو مساجد کے جملہ امور کی دیکھ بھال کرے، اس کو آباد رکھنے ، اس کی تعمیر و ترقی ، نظم و انصرام اور حفاظت کا فرض انجام دے۔ اہلِ شر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ان کی مکمل حفاظت کرے۔ قرآن کی روشنی میں اس کمیٹی کے افراد میں کم از کم پانچ خوبیاں ناگزیر ہیں: وہ اللہ اور یوم آخرت پر پختہ ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کی اقامت کرتے ہوں، زکوۃ پابندی سے ادا کرتے ہوں، دین کا بنیادی علم ان کے پاس ہو اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ان اوصاف کے بغیر مساجد کی تعمیر و ترقی اور حفاظت کا فرض انجا م نہیں دیا جا سکتا ہے۔
مساجد کے حقوق کے تحت یہ بعض امور ہیں جن کی اختصار کے ساتھ نشان دہی کی گئی ہے ۔ ہم تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ مساجد جنہیں اللہ کا گھر کہا گیا ہے اور جنت کا باغ بتایا گیا ہے بلکہ ہر مومن اور متقی کا گھر قرار دیا گیا ہے اور جس کی تعمیر پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ان مساجدکے حقوق اد اکرنے میں ہم ایک دوسرے سے سبقت کریں۔ اس تعلق سے جو کوتاہیاں ہو رہی ہیں، ان کودورکرنے پر لوگوں کی توجہ مبذول کرائیں تاکہ مساجد کی مکمل طور سے حفاظت ہو سکے اور ان سےجملہ مسلمان کما حقہ مستفید ہوسکیں۔باعث حیرت ہے کہ اکثر خطباء حضرات بھی مسجد کے احترام کو موضوعِ گفتگو نہیں بناتے ہیں اور خطبات جمعہ کے عربی و اردو مؤلفین بھی اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ جن مسلمانوں سے مساجد کے حقوق ادا نہ کیے جاسکیں وہ دیگر اداروں ، طبقات اور اشخاص کے حقوق کیسے ادا کریں گے۔ اللہ ہم سب کو مساجد کی ضروریات کو اپنے گھر سے زیادہ اہمیت دینے اور ان کے جملہ حقوق ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
آپ کی راۓ