کیوں رو رہے ہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت پر…؟؟؟

ندیم اختر سلفی / سعودی عرب

24 اگست, 2020

دنیا کے تمام مقامات میں مسجد اللہ کے نزدیک سب سے محبوب جگہ ہے اور ان سب میں سب سے مقدس کعبہ ہے، اس کے باوجود کئی دہائیوں تک یہ بتوں کی آماجگاہ بنا رہا، جسے پاک کرنے کے لئے اللہ نے اپنے سب سے چہیتے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا، بعثت کے بعد بھی 18 سال تک یہ کعبہ بتوں کا مرکز بنا رہا.

مکہ جو آپ کی جائے پیدائش اور آپ کے نزدیک بہت ہی محبوب تھا، کچھ مدت کے لئے آپ نے اسے بھی خیر آباد کہہ دیا.

سوچنے والی بات یہ ہے کہ

جو اللہ 60 ہزار ابرہہ کے لشکر کو اپنے گھر کی حفاظت کے لئے پرندوں کے ذریعے ختم کرواسکتا ہے اس کے لئے مکہ کے چند گنے چُنے معاندین اور سرکشوں کو ختم کرنا کون سی بڑی بات تھی، اپنے کسی بھی لشکر سے انہیں ختم کرکے یکلخت کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے سپرد  کیا جاسکتا تھا، انہیں قبلے میں تبدیل کیا جاسکتا تھا، یہ کام اللہ کے لئے ذرا بھی مشکل نہ تھا.

لیکن اللہ نے ایسا کیوں نہ کیا؟؟ 18 سالہ وقفے میں کعبہ کی واپسی اور بتوں سے اس کی صفائی تک جو کچھ بھی ہوا وہ سب اللہ کے نظام اور اس کی تدبیر سے ہورہا تھا، وہ در اصل اپنے ماننے والوں کو ان کی عظمت کی بازیابی کے لئے ایک نظام دینا چاہ رہا تھا جس کے ذریعے کبھی بھی اور کہیں بھی ان کی عزت اور وجہ افتخار پر ہاتھ ڈالنے والوں سے مقابلہ کیا جاسکے.

کیا واقعی ہم اس وقت اس نظام کے پاسدار، محافظ اور امین ہیں؟؟

شاید ہم کسی اور مسجد کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں، قانونِ عظیم سے ہٹ کر محض انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کے سہارے عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے لئے ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ سراسر غلط ہے، میں نہیں کہتا کہ آسمان و زمین کے قانون کو ایک دوسرے سے بھِڑا دیا جائے، ہرگز نہیں، نہ اس کا وقت ہے اور نہ اس وقت آپ اس کے اہل ہیں، یہ سچائی ہے، یقین نہ ہو تو آئینہ دیکھ لیں، کیونکہ آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں۔

ایک بابری مسجد کے جانے اور اس کی جگہ مندر بنائے جانے سے کیوں غم زدہ ہیں؟ کیوں آنسو بہا رہے ہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت پر؟ زمین کے چند ٹکڑوں کے جانے کا غم ہے آپ کو، اللہ نے تو آپ کے لئے پوری زمین کو مسجد بنادیا ہے، جو دولت آپ سے چلی گئی ہے اسے واپس کرنے پر اللہ پوری طرح قادر ہے، مگر وہ آپ کو آزمارہا ہے، اسے پتہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان اور خصوصاً ہندوستانی مسلمان اس وقت اپنے دین میں کتنے سنجیدہ ہیں، اسے پتہ ہے کہ ہم اپنے دین کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں، اسی لئے تو اس نے ہمیں آپس میں بھِڑوا دیا ہے، کعبۃ اللہ کی بازیابی کے لئے پیغمبر اور ان کے ماننے والوں کو جو نظام دیا گیا تھا ہم نے تو اسے طاقوں کی زینت بنادیا۔

یہ صحیح ہے کہ مُوحِّد اور مُشرک کا اجتماع نہیں ہوسکتا پر مُوحد کا تو ہوسکتا ہے وہ کیوں آپس میں لڑ رہے ہیں؟ ان کی زبانیں خاموش کیوں ہیں؟

یہ مسلمانانِ برصغیر اور خصوصاً بھارت کے مسلمان کب تک ایک دوسرے سے دست وگریباں رہیں گے؟ کب تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہیں گے؟ کب تک ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہیں گے؟ آپ لڑتے رہیں، وقار کھوتے رہیں، مسجدوں کی نیلامی کا تماشا دیکھتے رہیں، مینارِ عظمت سے دور بھاگتے رہیں، اپنے ہی ہاتھوں سے مسجدوں کو ویران کرتے رہیں، تو پھر یہ رونا کیسا؟ ایک مسجد کے جانے کا یہ غم کیوں؟ یاد رکھیں عروج وزوال کے لئے اللہ کا جو  نظام ہے وہ کبھی بدل نہیں سکتا… جب تک کہ آپ خود نہ بدل جائیں «ِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ» [الرعد: 11]،  (کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وه خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے).

آپ کروٹ بدلنے کو تیار نہیں اور انتظار میں ہیں کہ رب کی مدد آئے گی! اچھے، بُرے، حق اور باطل کی تمیز کھو بیٹھے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ پھر کوئی مسیحا آئے گا! مسیحائی نظام کے رہتے کس مسیحا کا انتظار ہے آپ کو؟ جنگلوں کے درمیان سے آپ کو خود ہی راستہ نکالنا ہوگا،  جھوٹی تسلیوں کے سہارے کب تک اس ملک میں اپنے وجود کو قائم رکھ پائیں گے؟ آپ کو کروٹ بدلنا ہی ہوگا، کمر سیدھی کرنا ہی ہوگا، اس کے سوا آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں.

کیا مسلمان «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ» (آل عمران : 186) (یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کر لو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے).

والا سبق بھول گئے؟ یا مسلمانانِ برصغیر کو «وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ» (الأنبياء : 105) (ہم زبور میں پند ونصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے) والے اللہ کے وعدے پر یقین نہ رہا؟؟، ایک خوشخبری اور مسرت دینے والی کتابِ زندگی کے غائب ہوجانے سے مایوسی اور آنسو کے سوا کسی اور چیز کے کیا ہم مستحق ہیں…؟؟؟

اللہ کے واسطے ذرا سوچئے کہ آپ کس ڈگر پہ چل پڑے ہیں، یہ آپ کا راستہ نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے.  اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔

ندیم اختر سلفی

سعودی عرب

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter