بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے مابین آرمینیا، آذربائجان، جورجیا اور جنوبی روس کے کچھ علاقوں پر مشتمل وسیع وعریض خطہ ارض قفقاز کہلاتا ہے۔ یورپ اور ایشیاء کو علیحدہ کرنے والا عظیم کوہ قاف کا پہاڑی سلسلہ بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ترکی، ایران اور روس جیسے بڑے ممالک سے ملحق یہ پہاڑی علاقہ ایک عرصہ دراز سے سیاسی و فرقہ وارانہ تنازعات کا میدان بنا ہوا ہے۔انیسویں صدی تک شمالی قفقاز اور داغستان کا پورا علاقہ ایرانی سلطنت کے زیر تسلط تھا۔انیسویں صدی کے اختتام تک یہ سارا علاقہ روسی ریچھ کے پنجوں تلے آگیا۔قفقاز، داغستان اور وسط ایشیاء کی خیوا، بخارا، قوقند وغیرہ مسلم ریاستوں سے ایک تخمینہ کے مطابق تقریباً ایک کروڑ مسلمانوں کو روسی سوشالسٹ درندوں نے قتل کیا ہے۔1991میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی وسط ایشیاء کے مختلف ممالک کے ساتھ قفقاز کی تین ریاستیں جورجیا، اذربائجان اور آرمینیاء بحثیت آزاد ممالک کے معرض وجود میں آتے ہیں۔آزاد ہوتے ہی نگورنوکاراباخ کے علاقے کو لیکر اذربائجان اور ارمینیا کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی نیم جنگ کی صورت اختیار کرتی ہے اور جس کی وجہ یہ دونوں ممالک جارحانہ طور پر ایک دوسرے کے سامنے آتے رہے۔
یورپ کی سرحد پر موجود قفقاز کا یہ علاقہ امن و سیکورٹی کے اعتبار سے اہم ترین خطہ ہے۔نگورنوکاراباخ کا متنازعہ علاقہ ہی اذربائجان اور ارمینیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔اذربائجان(Azerbaijan) کو سرکاری طور پر جمہوریہ آذربائیجان کہا جاتا ہے اور یہ یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے ۔
آرمینیاء کاسرکاری نام جمہوریہ آرمینیاہے۔یہ ایک زمین بندملک ہے جویوریشیا میں قفقاز کے خطے میں واقع ہے۔ اس کے مغرب میں ترکی، شمال میں جارجیا، مشرق میں آذربائیجان اور جنوب میں ایران کے ممالک واقع ہیں۔نگورنو کاراباخ ایک متنازعہ خطہ ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت اذربائجان کا حصہ قرار پایا تھا لیکن اس کا انتظام وہاں کے ارمینائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔آرمینیا ایک عیسائی اکثریتی ملک ہے جب کہ تیل سے مالا مال اذربائجان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔
نگورنوجاراباخ تنازعہ کی جڑیں سویت دور میں پیوست ہیں ۔1921میں اذربائجان اور ارمینیا دونوں ممالک سویت یونین کاحصہ بن گئے ۔اس متنازعہ خطے کی اکثریت ارمینیائی نسل کی ہے ۔سویت یونین نے اس خطے کا کنٹرول اذربائجان کو دیا تھا ۔لیکن 1991میں سویت یونین کی خفیہ مدد سے ارمینیا نے اس علاقے پر قبضہ کیا جو قانونی اور تاریخی طور پر اذربائجان کا حصہ قرار پاتا تھا۔ سویت یونین کے بکھرنے کے معاً بعد ارمینیا نے اذربائجان کے سات علاقوں پر حملہ کرکے ان پر قبضہ جما لیا۔ارمینیا کے مقبوضہ علاقوں میں پہلا خود مختار علاقہ ناگورنو کاراباخ ہے ۔دوسرا مقبوضہ خطہ ناگورنوکارباخ کے ساتھ ملحق سات علاقے ہیں ۔باوجود اس کے کہ ارمینیا جغرافیائی طور اور فوجی قوت کے اعتبار سے نہایت چھوٹا سا ملک ہے لیکن قفقاز میں یہ ایک سامراجی مزاج کا حامل ملک ہے۔ارمینیا نے ناگورنو کاراباخ کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لئے اس علاقے سے 1.5میلین آزربائجانی مسلمانوں کو نقل مکانی کرنے ہر مجبور کیا اور اسطرح سے اس علاقے میں ارمینیا کا قبضہ جائز ٹھہرانے کی کوشش کی۔ارمینیا نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی قتل غارت کی ہے۔ناگورنوکاراباخ کے ارمینائی نسل کے لوگوں نے 1920کے بعد کئی بار آرمینیا کے کنٹرول میں جانے کی پرزور مطالبہ کیا لیکن یہ مطالبہ سویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے فورا بعد وہاں کی ریجنل پارلیمنٹ کے ارمینیا کے حق میں ووٹ دینے کی صورت میں برآمد ہوا۔جس کی وجہ سے وہاں پر آرمینیا کی استعانت سے علیحدگی تحریک شروع ہوئی ۔اس علیحدگی کی تحریک کو اذربائجان نے دبانے کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں یہ علاقہ فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آیا۔یہ فسادات سویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد مستقل جنگ میں تبدیل ہوئے۔دونوں طرف کی ظلم و تعدی کے نتیجے میں ہزاروں لوگ ہلاک اور لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ۔یہ علاقہ ارمینیا اور اذربائجان کے مابین مستقل تنازعہ کا باعث بنا ہوا ہے۔گزشتہ ماہ میں اس خطے پر کنٹرول کرنے کے حوالے سے زبردست جنگ شروع ہوئی ۔جس میں تاہنوز سینکڑوں فوجی اور سویلین ہلاک ہو چکے ہیں ۔اگرچہ اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کو آپسی گفت وشنید کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کی اس پیشکش کو رد کیا۔بات چیت کے برعکس دونوں ممالک نے ایک زبردست جنگ چھیڑ دی ہے۔
نوگورنوکاراباخ ایک مستقل تنازعہ کی حیثیت سے اس خطہ ارضی پر اپناوجود بنائے رکھا ہے۔یہ متنازعہ خطہ دو فوجی بلاکس کو وجود بخشنے کا باعث بھی بن سکتا ہے جس کے اثرات دوررس ہونگے۔روس، ایران اور ترکی بھی جنگ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پوزیشن سنبھال رہے ہیں حتی کہ دیگر کئی یورپی ممالک اندرونی طور اپنی پوزیشن بندی کرنے کی تیاری میں ہیں ۔ترکی نے اذربائجان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے 5اکتوبرکوکہاتھا "ہم اذربائجان کی اس مقدس جنگ میں ان کے ساتھ ہیں ".ترکی کے علاوہ پاکستان نے بھی اذربائجان کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان کے اس اقدام کی وجہ سے بھارت میں سوشل میڈیا پرارمینیاکاساتھ دینے کے رویہ کا اظہار ہو رہاہے۔معروف انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس میں نیہابانکانامی ایک کالم نگار کے مطابق "27ستمبرسے جب ناگورنو کاراباخ پراذربائجان اورارمینیا کے مابین جنگ کاآغازہواتھا،ایک اسٹریلیائی غیرجانبدار تھنک ٹینک اسٹرلیئن اسٹراٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے انڈین سوشل میڈیا پر عوام کا اس جنگ کے متعلق ردعمل کا جائزہ لیتے ہوئے ارمینیا کی سپورٹ کی نشاندہی کی ہے اوردوسری طرف پاکستان اورترکی کے سوشل میڈیا پر اذربائجان کی سپورٹ کی نشاندہی کی ہے”.مذکورہ حوالہ دینے کی غرض یہ ہے کہ اس جنگ کے غیر محسوس اثرات یہاں بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔اگرچہ بھارت کی وزرات خارجہ نے بیان دیا ہے کہ "بھارت اسی صورتحال پر متفکر ہے جو خطہ کے امن و سکون کے لئے پر خطر ہے۔اس لئے ہم دنوں ممالک کو سیز فائر یا جنگ بندی کا مشورہ دیتے ہیں ".لیکن سوشل میڈیا پر عوام الناس کا رد عمل عالم سیاست میں علت و معلول کے اصول کی اثرانگیزی ثابت کر رہا ہے۔
رابطہ ۔۔shabazrashid.470@gmail.com
آپ کی راۓ