اظہار رائے کی آزادی انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اگر انسان کو اس کے حق سے محروم کردیا جائے تو اس کی حیثیت جانور سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ اور انسانی آزادی پر قدغن لگا نے والاخوفناک درندہ سے کم نہیں ہوتا۔ اقتدار اور طاقت حاصل کرکے جو انسان معیار انسانیت سے گرجائے اور اپنے ہی جیسے انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرے، وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔
انسانیت پر ایسا دھبہ لگانے والے ہی ظالم کہلائے جاتے ہیں اور ایسے ظالموں کو راہ راست پرلانے کی خاطر جد وجہد کرنا، انسانوں کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ کسی بھی معاملے میں ہرایک انسان کو اپنی رائے رکھنے کا مکمل حق حاصل ہے اور اس حق پر قدغن لگانے کی کسی کو اجازت نہیں۔
اظہار رائے کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اظہار رائے کی آزادی کا پورا حق دیاہے۔ قرآن کریم کا اس کے تعلق سے اس قدر بلند تصور ہے کہ اس نے نہ صرف ”الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر“کو انسان کاحق بتلایا ہے بلکہ یہ اس کا فرض منصبی بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر“ (آل عمران: ۰۱۱) اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان“(مسلم: حدیث نمبر۶۸۱ ج:۱/۰۵)۔
قرآن کریم کی رو سے بھی اور حدیث کی ہدایات کے مطابق بھی انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ بھلائی کے لئے لوگوں سے کہے اور برائی سے روکے۔ اگر کوئی برائی ہورہی ہو تو صرف یہی نہیں کہ بس اس کے خلاف آواز اٹھائے بلکہ اس کے انسداد کی کوشش بھی فرض ہے۔ اور اگر اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی اور اس کے انسداد کی فکر نہیں کی جاتی تو الٹا گناہ ہوگا۔
مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کو پاکیزہ رکھیں اور اگر کسی نے بھلائی کے فروغ سے روکا تو اس نے نہ صرف ایک بنیادی حق سلب کیا بلکہ ایک فرض کی ادائیگی سے روکا۔
معاشرے کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو ہرحالت میں اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل رہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کی تنزلی کے اسباب بیان کئے ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ: ”کانوا لا یتناہون عن منکر فعلوہ“ (المائدۃ:۹۷) وہ برائیوں سے ایک دوسرے کو باز نہ رکھتے تھے۔
یعنی کسی قوم میں اگر یہ حالات پیدا ہوجائیں کہ برائی کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والانہ ہو تو آخرکار رفتہ رفتہ برائی پوری قوم میں پھیل جاتی ہے، اور وہ پھلوں کے سڑے ہوئے ٹوکرے کی مانند ہوجاتی ہے۔ جس کو اٹھاکر پھینک دیاجاتا ہے اس قوم کو عذاب الٰہی کے مستحق ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔
اظہار رائے کے شرائط: اظہار رائے کا حق انسان کا ایک بنیادی حق ہے، اسلام نے اسے یہ حق عطا کیا ہے، انسان کے کسی حق پر بے جا پابندی نہیں لگنی چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ حق آدمی کو اس بات کا بھی پابند بناتا ہے کہ وہ اظہار خیال کے نام پر وہ بے حیائی نہ پھیلائے، کسی کی دل آزاری نہ کرے، کسی کا مذاق نہ اڑائے، کسی کی آبرو وعزت سے نہ کھیلے اور ملک وریاست کو خطرے میں نہ ڈالے، اور نہ اس کے خلاف سازش نہ کرے۔انسان کی ساری آزادی اس وقت سلب ہوجاتی ہے جب وہ اس آزادی سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچانا شروع کرتا ہے، کسی کے جذبات واقدار کو مجروج کرتا ہے، کسی مذہب اور دھرم کو نشانہ بناتا ہے۔ دنیا کا کوئی قانون ایسا نہیں ہے، جو اس نوعیت کے اظہار رائے کی آزادی اپنی عوام کو دیتا ہے، یہ اور
عہدرسالت اورخلافت راشدہ میں اظہار رائے کی آزادی کے چند نمونے:
رسول اللہا کا معمول تھا کہ صحابہ کرام سے مختلف معاملات میں رائے لیتے اور ان کی تشجیع کرتے ”جنگ بدرکے موقع پر رسول اکرم ا نے ایک جگہ قیام کرنے کا حکم دیا تو ایک صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول! یہاں قیام کرنا بسبب وحی ہے یا جنگی تدبیر ہے؟ آپ ا نے فرمایا: جنگی تدبیر ہے تو صحابی نے فرمایا یہ جگہ مناسب نہیں ہے، لہٰذا یہاں سے چل کر دوسری جگہ قیام کیاجائے اور آپ ﷺنے ایسا ہی کیا“۔ (صحیح بخاری)۔
اسی آزادیئ رائے کا نتیجہ تھا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہانے مغیث کے سلسلے میں سوال کرنے سے ذرا بھی تأمل نہ برتا اور فرمایا یارسول اللہ! آپ کا یہ مشورہ بحیثیت رسول ہے یا بحیثیت محمد بن عبداللہ، آپ ا نے جواب دیا بحیثیت محمدبن عبداللہ، لہٰذا انہوں نے مغیث کو چھوڑ دیا۔ (صحیح بخاری)
مدرسہ نبوی کے فیض یافتہ حضرات نے بھی یہی تعلیم حاصل کی تھی چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے باقاعدہ اظہار رائے کی کھلی اجازت دے رکھی تھی۔ اور عہد فاروقی کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی راہ چلتے، بھری مجلس یا برسرمنبر جہاں چاہتا اس کا اظہار کرسکتا تھا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اعلان کروا رکھا تھا کہ جس پر بھی کسی نے ظلم کیا ہو وہ حج کے ایام میں آکر شکایت درج کروائے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ نے والیوں کے خلاف شکایت کی، اورآپ نے شکایت کنندہ کی شکایت سنی اور حق دلوایا، اس کا یہ اثر ہوا کہ کسی کی کیا مجال کہ طاقت وقوت کا غلط استعمال کرے۔
عہد فاروقی میں بھی اظہار رائے کی زریں مثالیں موجود ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں کو چار سو سے زیادہ مہردین دینے پرپاپندی لگانا چاہتے تھے، قبیلہ قریش کی ایک خاتون نے یہ اعتراض کیا اے عمر! تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا: ”وآتیتہم إحداہن قنطارا“ تو عمررضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: ”اللہم غفراً کل الناس أفقہ من عمر“اے اللہ عمر کو معاف کردے تمام لوگ عمر سے زیادہ فقیہ
ہیں اس کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! میں نے تم کوعورتوں کوچار سو سے زیادہ مہر دینے سے منع کیا تھا، اب لوگوں کو اختیار ہے جتنا چاہیں دیں۔
عثمان غنیؓ نے سیاسی اختلاف کی اس قدر آزادی دے رکھی تھی کہ مخالفین کی طاقت کو کچلنے یا ان کی زبان بند کرنے پر اپنی جان دینے کو ترجیح دی۔
خلاصہ یہ ہے کہ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے اس میں بے جان زندگی گزارنا نہیں چاہئے بلکہ مؤثر اور فعال کردار ادا کرنا چاہئے یہ اس کا فطری حق ہے۔ اور معاشرہ بھی اسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب کہ ہر فرد کو صلاحیت اور استعداد کے مطابق تگ ودو کے مواقع اوراظہار رائے کا حق حاصل ہو۔
لیکن گزشتہ دنوں فرانس میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر جوکچھ ہوا وہ نہایت افسوس ناک اور انسانیت کو شرمشار کردینے والا ہے۔ اسلام کو مطعون کرنا، پیغمبر اسلام کے خلاف زبان دراز کرنا، خاکے شائع کرنا، تقریر وتحریر کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کو نشانہ بنانا فرانس کا کوئی نیاکام نہیں، وہ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لئے گاہے بہ گاہے ایسا کرتا رہتا ہے، تاکہ مسلمانوں کو دلی تکلیف پہنچے اور وہ جوش ایمانی میں وہ سب کریں جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔فرانس کے جغرافیائی استاد کا اپنے مسلمان وغیر مسلم طلبہ کو رسول اللہﷺکا خاکہ دکھلانا ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ کسی مسلمان کی رگ غیرت بھڑک اٹھتی ہے، اس پر بھی مستزاد یہ کہ ایسے مجرم استاد کے خلاف شکایت نہ سنی جائے، بلکہ الٹے اسلام اور مسلمانوں کو انتہاء پسندی کا طعنہ دیا جائے، تو بھلا کون اسے برداشت کرسکتا ہے۔ انہی وجوہات کی پیش نظر فرانس میں کارٹون دکھلانے والے استاد کا ایک مسلمان طالب علم نے قتل کیا، جس کو بنیاد بناکر فرانس کے صدر نے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، جس پر مسلم دنیا سراپا احتجاج اور چراغ پا ہے، فرانس کی مصنوعات کا کھلے بائیکاٹ ہورہا ہے، پوری دنیا میں فرانس کے خلاف بڑی شدت کے ساتھ مظاہرے ہورہے ہیں، دکانوں سے فرانسیسی چیزیں غائب ہیں، اور الکٹرونک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں فرانس کے صدر کے اسلام مخالف بیان کی مذمت ہورہی ہے۔
اسلام کی ہدایت کے مطابق ایسے وقت میں ایک مسلمان کو صبر وضبط سے کام لینا چاہئے، اور اپنی ذات کو مکمل اسلام کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنی چاہئے، ایک مسلمان کی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سچی محبت وعقیدت اسی وقت ہوسکتی ہے جب وہ کامل اسلام کو اپنی زندگی میں نافذ کرے، توحید وسنت کی راہ کو اپنائے، شرک وبدعات سے گریز کرے، اخلاق وکردار کا پابند ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ان شاء اللہ فرانس اور ان جیسے مادرپدر آزاد لوگ کبھی بھی کسی نام سے اسلام کے روشن اور صاف وشفاف تعلیمات کو بدنام نہیں کرسکتے، اور نہ اپنی سازش میں کامیاب ہوسکتے ہیں، آخر اہل یورپ پوری دنیا میں اسلام کے پھیلاؤ اور فروغ کو دیکھ کر اسلام اور پیغمبر اسلامﷺکو بدنام کرنے ہی کی تو سعی لاحاصل کرسکتے ہیں،اس کے علاوہ ان سے ہم مسلمان کس بات کی امید کرسکتے ہیں۔ خاکے کی اشاعت اور صدر فرانس کی ہرزہ سرائی کا جواب ہمیں حکمت اور دانائی سے دینا ہے جذبات میں ہرگز ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہو۔
ظظظ
آپ کی راۓ