مجبور وبےکس نیپالی عوام کوویڈ سے متاثر؛ ہرروز امواتیں بیشمار آکسیجن،میڈیسین،ویکسین کی عدم دستیابی موت کابگل بجارہی ہے ہرچہار جانب سوگ کا سمان ہے اور ہمارے سرکردہ سیاسی رہنما جمہوریت کا اغوا کر بار بار ایوان نمائندگان کو تحلیل کررہےہیں، اقتدار کے تحفظ اور اپنی انا کی خاطر کسی کو خاطر میں نہیں لے رہے ہیں، المیہ بڑاہے ، گذشتہ شب جب نیپالی عوام اسپتالوں میں موت و حیات کی جنگ لڑ رہے تھے عین نصف شب ملک کی صدر بدیا بھنڈاری اور وزیر اعظم اولی نیپالی دستور اور جمہوریت پر شب خون مار رہے تھے – بدحالوں پر بجائے مرہم رکھتے ضروری طبی اشیاء کی فراہمی کرتے ، آکسیجن کا انتظام کرتے،ویکسینیشن مہم کو تیز کرتے، متوفین کے ورثاء کے ساتھ غمگساری کرتے،اسپتالوں کو سہولتیں فراہم کرتے،وینٹیلٹر،آیسولیشن کے لئے اقدام کرنے کے بجائے پارلیمنٹ تحلیل کرانتخاب کے ذریعہ کرسی پانے کے دوڑ میں ہیں، ۱۲ اور ۱۹ نومبر ۲۰۲۱ کو الیکشن کا اعلان کیا گیا ہے- لیکن کیا کورونا کے بڑھتے اثرات کے سبب الیکشن کا انعقاد ممکن ہو پائے گا ؟ اور اگر وقت پر الیکشن نہیں ہو پایا تو ملک نجانے کتنے بحرانوں کا شکار ہوگا- اولی حکومت نیپال میں کورونا پر کنٹرول نہ پانے کی ذمہ دار ہے؛ اولی ترقیاتی کاموں کی بجائے شہ اور مات لا کھیل کھیلتے رہے – پڑوسی ملک میں کورونا کی خطرناک اقسام کے باعث جن تباہیوں کا وہاں کے لوگ سامنا کر رہے ہیں ہمارے سامنے ضرب المثل ہیں ، نیپال میں اگر وہی حالات پیدا ہوتی ہیں بلکہ اس کے نمایاں آثار ہیں اسی میں اس دھارے کو روکنا اور حالات پر قابو پانا ناممکن ہوگا۔ جو ممالک خودمختار ہیں انکے پاس میڈیسین کی فیکٹریاں ہیں آج وہ اس سیلاب کو روکنے میں ناکام ہیں تو ہمارے ملک میں تو کچھ بھی نہیں دوسرے کے بھروسے پر زندگی کی سانسیں کب تک چلیں گی۔
اللہ ہی نگہبان ومحافظ ہے۔
حالات حاضرہ کے تناظر میں غیر دستوری حرکتیں نہ وزیر اعظم اولی اور نہ ہی صدر جمہوریہ بدیا بھنڈاری کو شوبھا دیتی ہیں- یہ دوسری بار ہے جب موجودہ وزیراعظم کے پی اولی کی عرضی پر صدر نیپال نے ایوان نمائندگان کو تحلیل کردیا ہے،جس پر ملک کے ہر اطراف و اکناف سے منفی ردعمل آرہاہے۔ اس سے قبل کرسی کے ردوبدل کے لئے آویسواس(عدم اعتماد) تحریک کے ذریعہ ایوان میں ووٹنگ ہوچکی ہے جس میں وزیراعظم اولی کی شکست ہوئی تھی اور کام چلاؤ وزیراعظم مقرر ہوئے پھر رنگ بدلا اور اپنی اکثریت ثابت کرکے دوبارا وزیراعظم کی حلف برداری لئے، یہ سب امالے کے اندر انکی آپسی اختلافات کےسبب ہورہاہے کیونکہ مادھو کمار نیپال اولی خیمہ سے باھر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہیں جو نہ تو آوسواس پرستاؤ میں اولی خیمہ میں گئے اور ناہی دوتین دن قبل ہوئے انتخاب میں اولی کاساتھ دیکر انکے نمائندے کو کامیاب بنائے۔ اس ضد میں اولی مادھو سے سخت ناراض اور ان پر کاروائی کرنے کی دھمکی دےچکےہیں واضح رہے کہ امالے پارٹی سے پہلے ہی ان لوگوں کو برطرف کردیاگیا تھا اور مادھو خیمہ نے پارٹی کے املاک بینک اکاؤنٹس کے بلاک کرنے کے لئے عدالت کادروازہ بھی کھٹکھٹا چکے تھے، اور راشٹریہ بنک کو خط لکھ قانون بموجب سیج کرنے کی التماس بھی کرچکے تھے ۔
"گھر 🏡 پھوٹا گنوار لوٹا” یہ مثل مشہور ہے جو آج امالے پر پوری طرح فٹ ہورہاہے ، عوام نے اعتماد کا حق دےکر انہیں ملک کی تعمیر وترقی کے لئے زمین سے اٹھاکر اقتدار تک پہنچایا تھا لیکن کیا پتہ تھا کہ یہ لوگ ذاتی منفعت کے طعم میں آپس میں دست گریباں ہونگے اور ایوان کو تحلیل پر تحلیل کریں گے انتخاب کے بگل بجائیں گے خیموں میں بٹ جائیں گے ایک دوسرے پر التزام عائد کرکے کوٹ تک جادھمکیں گے، عدم اعتماد کا پرستاؤ لاکر جگ ہنسائی کرائینگے ۔ آج پوری دنیا اس چھوٹے سے ملک کی سیاسی ناچ پر انگشت بدنداں افسردہ ہے۔ کاش یہ بات ان اقتدار کے بھوکے لوگوں کو سمجھ میں آجاتی کہ لوگوں کا اعتماد نہ توڑیں وقت کو غنیمت سمجھ کر لوگوں سے کئے گئےوعدوں پر کھرے اتریں تاکہ مستقبل میں دردر بھٹکنے سے راحت کی سانس ملے اورعوام کے سامنے سالیہ ؟ نشان نہ بنیں ۔ اگر حالات بدستور قائم رہے تو یہ بات یقینی ہے کہ ملک جس تیزرفتاری سے ترقی کےراہ پر گامزن تھا وہ تاریکی کی طرف اوندھے منہ ایساگرےگا کہ پھرابھرتے سنبھلتے برسوں لگ جائیں گے ، ویسے نیپال کو بار بار وزیراعظم دیکھنے کا رواج قدیم رہاہے چاھئے دورشہنشاہیت ہو یا دور جمہوریت ۔ خوداعتمادی اور اتحاد ترقی کا ضامن ہے برعکس اختلافات اور ایک دوسرے کے اوپر الزام اورحرص۔
اللہ وطن عزیز کو سلامت رکھے آمین
آپ کی راۓ