جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

7 جون, 2021

معروف وممتاز شاعر اکبر الہ آبادی نے کہاتھا کہ.
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
اکبر الہ آبادی کے کلام میں رنگینی ہے، شوخی ہے، طنز ہے، مزاح ہے،زبان کا چٹخارہ ہے، گہرائی اور گیرائ ہے .ان کے طنزیہ اشعار میں پیغام بھی ہے. اکبر الہ آبادی نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت وافادیت پر جو روشنی ڈالی ہے توپ وتلوار سے بھی زیادہ ضرب بتایا ہے.ذرائع ابلاغ سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے. اخبار تلوار سے زیادہ تیز ، توپ وتفنگ سے زیادہ موثر واہم رول ادا کرسکتا ہے. مہلک ہتھیاروں سے سامنےوالے کو مارا جاسکتا ہے. لیکن میڈیا کے ذریعہ ذہن وفکر تبدیل کیا جاسکتا ہے. اور حالات وماحول بدلے جاسکتے ہیں.ہواؤں کا رخ موڑنا طوفانوں کا مقابلہ کرنا اور مخالف کو مات دینا اور خوشگوار وناخوشگوار ماحول تیار کیا جاسکتا ہے .تاریخ شاہد ہے اخبار ات کا رول بہت موثر ہوتا ہے.اس کے ذریعہ کتنی حکومتیں گریں اور بنیں ہیں.کتنے لوگوں کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا ہے کتنے گمنام لوگوں کو شہرت ومقبولیت حاصل ہوئ میڈیا کا اہم رول رہا ہے. اخبارات کے علاوہ الیٹرانک میڈیا سوشل میڈیا کا دور ہے. دور نزدیک کی خبریں ہم سن دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں.اخبارات ورسائیل ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں.اور اپنے اپنے فکر ومنہج کے ترجمان ہیں.لاکھوں قلمکار وصحافی پیدا ہوئے جنہوں نے حالات کا رخ موڑ دیا.

امام الہند مولانا ابولکلام آزاد رحمہ اللہ علیہ کی رعد آسا خطابت وزلزلہء افگن تحریر سے انگریزوں کےایوانوں میں زلزلہ پیداہوگیا تھا.الہلال.والبلاغ نے نہ صرف ہندستان میں بلکہ پوری دینا میں دھوم مچا دیا تھا. الہلال والبلاغ کی خبریں ومضامین انگریزی اخبارات (انگلش ترجمہ) میں بھی چھپتے تھے. یہ خبارات مولانا آزاد کے فکرات سے انگریزوں کو آگاہ کرتے تھے.
آج بھی کچھ لوگوں (صحافیوں وقلمکاروں) نے فرقہ پرستوں فسطائ جماعتوں وملک دشمن عناصر کے ایوانوں زلزلہ برپا کردیا ہے.

صحافت بہت ہی معزز وباوقار پیشہ ہے اس کے ذریعہ قوم ملت اور ملک کی بیش بہا خدمات انجام دی جاسکتی ہیں .صحافت کے ذریعہ لوگوں کے اذہان وقلوب میں تبدیلیاں پیدا کی جاسکتی ہیں.بلا شبہ صحافت اپنے افکار وخیالات ،احساسات و جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک اہم و موثر ہتھیار ہے۔اس کے ذریعہ وقت کا رخ اور دریاوں کے دھارے کو مو ڑ ا جا سکتا ہے ۔گویا صحافت تلوار کی دھار ہے جو تیز و باریک ہے ۔صحافت ایک روشنی ہےجس سے منفی ومثبت کام لیا جا سکتا ہے.صحافت کمزوروں کو طاقت بخشتی ہے.اور طاقتور کو کمزور ۔سوئے ہوئے کو بیدار اور بیدار کو خواب خرگوش میں مبتلاء کر دیتی ہے ۔صحافت سماج کی تشکیل وا رتقاء میں مہذب معاشرہ کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے..

"صحافت کیاہے؟صحافت کی تعریف صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’صحف ‘‘سے ماخوذہے ،جس کا مفہوم صفحہ یا رسالہ اخذ کیا جا سکتاہے ۔انگریزی میں ’’جرنلزم ‘‘جرنل سے ماخوذ ہے یعنی روزانہ کا حسا ب یا روزنامچہ ۔صحافت کی تعریف مختلف کی گئی ہے.”
مشہور انگریزی ادیب آر نالڈ نے صحافت کی تعریف یو ں کی ہے ’’صحافت عجلت میں لکھا گیا ادب ہے ‘‘journalism is literatur in a hurry۲ )لیکن یہ تعریف متنازع فیہ ہے ۔ اس کی صحیح اور جامع تعریف فن صحافت کی عمدہ امریکی کتاب ’’ایکسپلورنگ جرنلزم ‘‘کے مطابق یہ ہوگی کہ’’صحافت جدید وسائل ابلاغ کے ذریعہ عوامی معلومات ،رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے”اردو صحافت کا آغاز کب ہوا؟ اس کی تاریخ کیا ہے.؟صحافت کی تایخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ لندن کے تقریبا ایک درجن پبلشروں (ناشروں)نے ۱۶۶۲ء میں اپنی ایک انجمن قایم کی اور یہ اہتمام کیا کہ ایک دوسروں کو خبریں باہم تبادلہ کریں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ بہت ساری خبریں بیک وقت مہیا ہونے لگیں ۔اور اسے چھوٹے چھوٹے کتابچہ یا رسالہ کی شکل میں چھاپنے لگے تو عوام بھی ایسے اہم معلومات میں خاصی دلچسپی لینے لگی ،ایسے کتابچوں نے روز نامہ اخباروں کے لیے راہ ہموار کردی اور پھر لندن کا پہلا روزنامہ اخبار ’’لندن ڈیلی کورانٹ ‘‘کے نام سے پہلی بار ۱۷۰۲ء میں منظر عام پر آیا ۔اٹھارہویں اور انیسو ی صدی میں صحافت قدر ترقی میں رہی ،لیکن بیسوی صدی میں اس نے بے حد ترقی کی اور اس طرح یہ پوری دنیا میں پھیل گئی ۔ہندو ستان میں طباعت کا کام سب سے پہلے مسیحی مبلغوں نے شروع کیا تھا 1557ء میں گوا میں انہوں نے ایک چھوٹی سی کتاب شائع کی 1811ء میں اسٹیم انجن کے تعلق سے.اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کیے گئے ہیں۔کچھ لوگوں نےمولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر دہلوی کو کہتے ہیں ہیں کی انہوں نےشروع کیا تھا. مولوی محمد باقر صاحب تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے پہلے صحافی تھے. باقر صاحب کو انگریزوں نے توپ سے اُڑا دیا تھا۔ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار دہلی سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ بعض کا یہ دعوی ہے کہ اردو کا پہلا اخبار ’’آگرہ اخبار‘‘ ہے جو اکبرآباد سے 1831ء میں جاری کیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اردو کا سب سے پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ کا ضمیمہ تھا جو27؍مارچ 1823ء کو جاری ہوا اور 1824تک نکلتا رہا اور پھر بند ہوکر دوبارہ 1825میں جاری ہوا۔ جناب یوسف کاظم عارف کا دعویٰ ہے کہ ’’مراۃ الاخبار‘‘ اردو کا پہلا اخبار ہے جو 1821 میں کلکتہ سے جاری ہوا۔ جس کے روح رواں راجا رام موہن رائے تھے۔ ایک اور دعویٰ یہ بھی ہے کہ 1810ء میں کلکتہ سے کاظم علی نے ’’اردو اخبار‘‘ کے نام سے اردو صحافت کا آغاز کیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو اخبار کا آغاز ہندوستان کے پہلے مجاہد اور شہید آزادی ٹیپو سلطان شہید نے کیا تھا۔ جنہوں نے 1794ء میں ایک حکم صادر کیا کہ ایک سرکاری پریس جاری کیا جائے جس میں عربی حروف میں ٹائپ کی چھپائی ہو۔ ان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ اس پریس سے اردو زبان کا اخبار جاری کیا جائے جس کا نام ’’فوجی اخبار‘‘ رکھا جائے۔ یہ اخبار شاہی سرپرستی اور سرکاری نگرانی میں جاری ہوا جو اردو زبان کا پہلا اخبار تھا اگرچہ کہ عوام تک اس کی رسائی نہیں تھی بلکہ صرف شاہی فوج کے افسر اور سپائیوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری زبان فارسی تھی۔ اردو کی ابتدائی حالت تھی۔ مگر ٹیپو سلطان شہید کی دور بین نظروں نے یہ بھانپ لیا تھاکہ آنے والا دور اردو کا ہوگا۔ اس فوجی اخبار میں جو تقطیع پر ہفتہ وار شائع ہوتا تھا اس میں فوج کی نقل و حرکت، افسروں کے تعین اور تبادلے کی اطلاعات درج ہوتی تھیں۔ فوج کے متعلق احکامات بھی شائع کیے جاتے تھے۔ یہ پانچ سال تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے پریس اور فوجی اخبار کی تمام فائلوں کو ضبط کر لیا اور اسے آگ لگادی تھی. ” منقول.
بہر حال جس نے بھی اردو اخبار شروع کیا انہوں نے ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا اور اردوصحافت کی بنیاد ڈالی اردو ایک لشکری زبان ہے .کئ زبانوں سے مل کر بنی ہے.اردو ہندستان کی پیداوار ہے یہیں پلی بڑھی ہے یہں سے اس زبان کو فروغ ملا ہے یہں سے پوری دنیا میں پھیلی ہے یہیں سے مشرقی ،مغربی یورپ وعرب ممالک میں اردو پہونچی ہے آج کئ ملکوں میں اردو زبان میں اخبارات، رسائیل وجرائد شائع ہوتے ہیں.لاکھوں قارئین پائے جاتے ہیں ہزاروں ادباء وشعراء مولف ومصنف قلمکار اردو کی خدمت کر رہے ہیں.امریکہ لندن گلف وعرب ملکوں میں کانفرنسیں ادبی نششتیں ومشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں. ڈیڑہ سال سے کوروما ولاک ڈاؤن کی وجہ سے مشاعرے وادبی نششتیں بند ہیں تاہم آن.لائین پروگرام.آئے دن ہوتے رہتے ہیں.
افسوس ناک بات یہ ہے کی اردو کو متعصب اور اردو دشمن لوگوں نے غیر ملکی زبان، دہشت گردوں کی زبان تک کہ ڈالاہے. جب کی غیر مسلم ادباء شعراء مولف ومصنف اوراساتذہ لاکھوں کی تعداد میں گزر چکے ہیں اور موجود بھی ہیں جو اردو کی خدمت ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی اردو سے روزی روٹی جڑی ہوئی ہے.اردو زبان غیر مسلم ادباء وشعراء اپنا تخلص اردو میں رکھتے تھے اور رکھتے بھی ہیں تو ان کو مسلمان سمجھ لیا جاتا یے. زبانیں کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتی ہیں جہاں لوگ رہاءش پزیر ہوتے ہیں وہاں کی مقامی زبان بولتے ہیں.
کتنے ناہنجار ہیں وہ لوگ جو اپنی اولاد کو اولاد کہنے سے گریز کرتے ہیں.اردو ہندستاں کی زبان ہے.جو آج کئ ملکوں میں پڑھی اور بولی جاتی ہے. اردو زندہ باد..
مضمون نگار: المصباح کے ایڈیٹر ہیں. 9892375177
almisbah98@gmail.com

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter