بی جے پی کے قومی نائب صدر مکل رائے اپنے بیٹے شبھرانشو کے ساتھ اب دوبارہ اپنے پرانے گھر ٹی ایم سی میں واپس آچکے ہیں۔ بی جے پی کے ایک اور لیڈر راجیو بنرجی بھی ممتا دیدی کی ہری جھنڈی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بی جے پی کے منتخب شدہ 35 سے 40 ممبرانِ اسمبلی بھی ٹی ایم سی میں شامل ہونے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ریاستی بی جے پی اس قدر سراسیمگی کی شکار ہے کہ اسے خود اپنے لوگوں پر اعتماد نہیں رہ گیا ہے اور خوفزدگی کا یہ عالم ہے کہ بی جے پی کے لیڈران تنظیمی میٹنگ تک بلانے سے کترانے لگے ہیں کہ کہیں کسی کی عدم شرکت اس کے ٹی ایم سی میں شامل ہونے کا اعلان نہ بن جائے۔ یوں بھی ہرروز بی جے پی چھوڑنے والوں کی فہرست میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ مکل رائے بی جے پی میں حاشیے پر چلے جانے کی وجہ سے ناراض تھے اور اسی ناراضگی کی سبب انہوں نے گھر واپسی کی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی اپنے گھر کے لوگوں سے ناراض ہوکر گھر چھوڑ دے، مگر کیا ایسی صورت میں گھر کے لوگ اس شخص کی شکایت دور نہیں کریں گے اور خاص طور سے ایسے شخص کی جس نے گھر کی تعمیر کی ہو؟ لیکن مکل رائے کے معاملے میں دیکھا یہ گیا کہ بجز پردھان سیوک کے ذریعے خانہ پری کے ایک فون کے انہیں روکنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش اور انچارج کیلاش وجے ورگیہ بھی اس پورے منظرنامے میں کہیں نظر نہیں آئے جنہوں نے مکل رائے کے ساتھ مل کر پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کو 2 سے 18؍ تک پہنچایا تھا۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو مکل رائے کے موہ بھنگ کا اندازہ قبل ازوقت ہوگیا تھا؟ تو اس کا جواب ممتا بنرجی نے مکل رائے کو پارٹی میں شامل کرتے ہوئے پریس کانفرنس سے مل جاتا ہے جس میں ممتابنرجی نے یہ کہا کہ مکل رائے غدار نہیں ہیں اور یہ کہ وہ غداروں کو پارٹی میں شامل نہیں کریں گی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ممتابنرجی کے یہاں بھی مکل رائے کے لیے نرم گوشہ موجود تھا۔ اگر ممتابنرجی کے اس بیان کے حوالے سے مکل رائے کے دورانِ انتخاب کے بیانوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ شوبھیندوں ادھیکاری سے لے کر پردھان سیوک تک سب کا تان ممتابنرجی کو لعن طعن کرنے پر ٹوٹ رہا تھا، مکل رائے اپنے حلقہ انتخاب کرشنانگر میں سمٹے ہوئے اپنے انتخابی مہم میں مصروف رہے۔
مکل رائے کہ کہنا ہے کہ وہ اسمبلی الیکشن نہیں لڑنا چاہتے تھے بلکہ ریاست گیرسطح پر وہ الیکشن کی مہم چلانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی مرضی کے بغیر انہیں کرشنا نگر شمال سے الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ گوکہ وہ کامیاب ہوئے مگر اس کے ذریعے ریاستی سطح پر ان کے قد کو کم کردیا گیا۔ انہیں قصداً الیکشن کی مہم سے دور رکھا گیا تھا کیونکہ امت شاہ و کیلاش وجیہ ورگیہ نے الیکشن جیتنے کی جو حکمت عملی ترتیب دی تھی وہ مکل رائے کی حکمت عملی سے قطعاً مختلف تھی۔ جبکہ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے مکل رائے کی ہی سربراہی میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ اسمبلی انتخابات میں مکل رائے کو ریاستی سطح پر مہم چلانے سے روکا گیا؟ تو اس کا جواب ’جے شری رام‘ سے لے کر ’دیدی..او دیدی…‘ سے مل جاتا ہے۔ بی جے پی نے اس الیکشن میں پولرائزیشن کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار بنایا تھا۔
بہر حال اب مکل رائے ٹی ایم سی میں شامل ہوچکے ہیں اور ان کے بعد بی جے پی کے لیڈر راجیوبنرجی بھی قطار میں ہیں۔ اس کے علاوہ کولکاتا کی گلیوں میں یہ منظر بھی دیکھا جارہا ہے کہ بی جے پی لیڈران وکارکنان لاؤڈسپیکر کے ذریعے ٹی ایم سی وعوام سے علانیہ معافی مانگتے گھوم رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ چند روز قبل بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش کی صدارت میں 24پرگنہ میں ہوئی میٹنگ میں بھی تقریباً آدھے درجن بی جے پی کے ایم ایل اے شریک نہیں ہوئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ مکل رائے کی سربراہی میں ٹی ایم سی میں بہت جلد شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے جس کا امکان نہایت قوی ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ مودی جی کا ممتا کو تنہا کرنے کی دھمکی ممتا کو محض خوفزدہ کرنا تھا؟
آپ کی راۓ