عید قرباں: پاک دلوں کی نمائش گاہ

عبدالصبور ندوى

19 جولائی, 2021

عید قرباں یا عید الاضحی اسلام کی دوسری عظیم عید ہے جو حج کے مہینہ میں یعنی ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو سارے عالم میں منائی جاتی ہے- عید الفطر اگر نزول قرآن کی یادگار ہے تو عید قرباں ایثار و قربانی؛ جذبۂ صادق اور مجاہدہ نفس کی پکار ہے ۔

مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں : عید الاضحی محض سیر و تفریح: عیش و نشاط؛ لہو و لعب کا ذریعہ نہیں ؛ وہ تکمیل شریعت کا ایک مرکز ہے؛ وہ سطوت خلافت الہی کا ایک مظہر ہے ۔ توحید و وحدانیت کا منبع ہے؛ خالص نیتوں اور پاک دلوں کی نمائش گاہ ہے ۔
قربانی کسی بھی قوم کے لئے دلیل حیات ہے جب تک اس قوم میں قربانی کا جذبہ موجزن رہتا ہے وہ ایثار و اخلاص کا مجسم پیکر ہوتی ہے اس وقت تک دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ روکنے کی غلطی نہیں کرتی ۔ سربلندی وفیروز مندی اس کی قدم بوسی کو بیتاب ہوتی ہیں مگر جب وہی قوم اولو العزمی کے رہنما اصولوں اور شعائر سے بیگانگی برتتی ہے قربانی کی قدروں کو پامال کر دیتی ہے تو ذلت تو ادبار کی گھٹائیں دستک دینے لگتی ہیں ۔ اور انجام کار وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دی جاتی ہے-
عید قربان در حقیقت ہر لحظہ اپنا سب کچھ راہ خدا میں قربان کر دینے کے جذبے سے سرشار ہونے کی خوشی کا نام ہے؛ ایک جانور کی قربانی دینے کے عمل کا ہر سال اعادہ کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ ہم اسی طرح اپنی جان و مال آل و اولاد اور تمام تر خواہشات رب العزت کی راہ میں قربان کرنے کو تیار ہیں ۔
قربانی یہ نہیں ہے کہ ایک فربہ جانور ذبح کردیا جائے؛ اگر ہم قربانی کا یہی مقصد سمجھتے ہیں تو معاف فرمائیں یہ ایک عامیانہ اور سوقیانہ سوچ ہے ۔دین اسلام میں ایسے سطحی تصور کی قطعی گنجائش نہیں بلکہ قربانی تو ہمارے دلوں کا امتحان ہے؛ ہمارے پاکیزہ قلوب کی نمائش گاہ کا مظہر ہے جہاں اس ذبیحہ سے پروردگار کو صرف دلوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : قربانی کا گوشت یا اس کا خون بارگاہ الہی میں نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقوی اور خلوص عمل اس تک پہنچتا ہے- الحج: 37 ۔
معلوم ہوا کہ رب العزت کی بارگاہ میں اس روح کی پذیرائی ہوتی ہے جو ایثار پرہیزگاری اور مجاہدہ کی بھٹی میں تپ کر اپنے آپ کو کندن بنا لیتی ہے ۔
آج کے بدلتے حالات میں اکثریتی فرقہ کے متعصبانہ رویہ رکھنے والی تنظیمیں نفس قربانی پر بے جا اعتراضات کرتی پھرتی ہیں؛ بے زبان جانوروں کی ہلاکت کا الزام لگاتی ہیں؛ حالانکہ وہ آئے دن بے گناہ انسانوں کی ہلاکت اور زندہ لاشوں کے جلائے جانے والے روح فرسا واقعات کو دیکھتی اور سنتی ہیں پھر بھی انہیں اس کا ملال نہیں ہوتا مگر قربانی کے مسئله پر چونک پڑتی ہیں ۔ جبکہ قدیم زمانے سے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کرنے کی روایت رہی ہے ۔ یہ امر بھی واضح ہوچکا ہے کہ جانوروں کے کھانے سے ہی جانوروں کا وجود اور تکثیر نسل کا سلسلہ قائم و دائم رہتا ہے اور پھر اسلام نے جانوروں کی قربانی سے انسان کی باطنی قربانی طلب کی ہے ۔
سلطان ترکی نے ایک مرتبہ برہم ہوکر فرانس کے حکمرانوں سے کہا تھا "یہ بات اچھی طرح سوچ لو کہ جو قوم دو مبارک تقریبوں کا امتحان پاس کر سکتی ہے وہ اپنے تحفظ کا نصاب بھی پورا کر سکتی ہے "۔
وہ در اصل فرانسیسی حکمرانوں کو بتانا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی یہ دو عیدیں انہیں جرأت حوصلہ اور قربانی کے جذبات سے مسلح کر دیتی ہیں اور جو قوم سال میں دو مرتبہ اسلحہ بند ہوتی رہے اس کے منہ آنا خردمندوں کا کام نہیں ہے ۔
آج ہم عید قرباں منا رہے ہیں خوشیاں بانٹ رہے ہیں مگر اس موقع پر ہمیں اس جذبۂ صادق کی مطابقت درکار ہے جسے دیکھ کر زمین و آسمان کی تمام مخلوق حیران تھی؛ اللہ کے حکم سے ایک باپ اپنے لائق ومطیع فرزند کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہا تھا؛ ارض و فلک ٹکٹکی لگائے ہوئے تھے اللہ کو یہ ادا بے حد پسند آئی اور پھر بیٹے کی جگہ اللہ کے حکم سے ایک دنبہ ذبح ہو رہا تھا اور پھر اللہ نے رہتی دنیا تک کے لئے اس عمل کو اپنے تقرب کا ذریعہ قرار دے دیا ۔ یہ وہی تاریخ ساز نسبت اور سنت ابراہیمی ہے جس کی پیروی میں دنیا بھر کے مسلمان عید قرباں کے موقع پر بارگاہ الہی میں تقرب کی نیت سے جانوروں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔
مگر یہ نذرانہ پیش کرتے وقت یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ہمارے دلوں میں ریا و نمود کا شائبہ تک نہ ہو صرف خلوص نیت ہو؛ چونکہ معمولی دکھاوا بھی نیک عمل کو ضائع کر دیتا ہے اور پھر ہماری یہ عید پاک دلوں کی عید ہے؛ یہاں سطحی اور بچکانہ تصور کی گنجائش کہاں!

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter